پارلیمنٹ کے قیام کی تجویز پیش کرتے ہیں کہ جس میں امامیہ، حنفی، مالکی وغیرہ سب مکاتب فکر شامل ہوں اور ہر کوئی اپنی پسند کے مطابق اپنے مسئلے کاحل نکال لے۔‘‘ [1] جبکہ اپنی پسند کو اپنا دین بنالینے کے بارے کتاب اللہ نے بہت ہی سخت تبصرہ کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ اَرَءَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰهَهٗ هَوٰىهُ اَفَاَنْتَ تَكُوْنُ عَلَيْهِ وَكِيْلًا﴾[2] یعنی اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا آپ نے ایسے شخص کو دیکھا ہے کہ جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنا لیا ہے کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے شخص کی ذمہ داری اٹھائیں گے ؟۔ اسی طرح جناب الطاف احمد اعظمی صاحب کا نقطہ نظر یہ ہے کہ ’’کم نظر علما کی نظر میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریحات دائمی اور واجب التعمیل ہیں جبکہ صحیح بات یہ ہے کہ معاملات سے متعلق اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریحات ان کے ذاتی اجتہاد کا درجہ رکھتی ہے اور اس کی پابندی لازم نہیں ہے۔‘‘ [3] الطاف صاحب کا خیال ہے کہ جن معاملات میں قرآن کے احکامات مجمل ہیں۔ ان مجمل احکامات کی تشریح میں وارد آپ کی احادیث کی حیثیت دائمی نہیں ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی احادیث آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہادات ہیں اور یہ احادیث صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے زمانے کے تہذیب و تمدن کے مسائل کے حل کے لیے ہی تھیں۔جبکہ درست بات یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنن اور احادیث، چاہے ان کا تعلق قرآن کے کسی مجمل حکم کی شرح سے ہو یا وہ قرآن کے علاوہ کسی نئے حکم کا ماخذ ہوں ، ہر دوصورتوں میں دائمی اور ناقابل تغیر حیثیت کی حامل ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْيَوْمِ الْاٰخِرِ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِيْلًا﴾ [4] ’’ اے اہل ایمان!اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو اور اپنے حکمرانوں کی بات مانوپس اگر کسی بھی مسئلے میں تمہارا (اپنے حکمرانوں سے)جھگڑا ہو جائے تو تم اسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم (یعنی قرآن و سنت)کی طرف لوٹا دو، اگر تم اللہ اور آخری دن پر ایمان رکھتے ہو۔یہ بہت زیادہ بہتر اور انجام کار کے اعتبار سے اچھا ہے۔‘‘ اس آیت مبارکہ میں’شیء‘ نکرہ وارد ہو اہے اور لغت عرب کایہ معروف قاعدہ ہے کہ جب نفی‘ نہی یا کسی اسم شرط کے سیاق میں نکرہ ہو تو وہ اپنے عموم میں نص بن جاتا ہے یعنی پھر اس سے عموم بیان کرنا متکلم کا منشا ہوتا |