Maktaba Wahhabi

53 - 106
اس کی انفرادی یا اجتماعی حیثیت میں پوری طرح کھلا ہے۔‘‘ [1] واقعہ یہ ہے کہ مجتہد کے لیے اگر ہم وہ شرائط بیان نہ کریں جو علما و فقہا نے بیان کی ہیں تو علوم دینیہ سے ناواقف شخص بھی مجتہد کہلائے گا‘ پس عالم دین اور عامی میں فرق کیا ہوا ؟ جب کوئی فرق نہیں ہے تو دونوں مجتہد ہیں اور جب دونوں مجتہد ہیں اور ایک عامی بھی دینی مسائل میں لوگوں کی رہنمائی کر سکتا ہے تو کسی ا سلامی معاشرے میں علمایا علم دین کے حصول کی ضرورت کیا معنی اور وقعت رکھتی ہے؟دوسری بات یہ ہے کہ جدیدیت پسند اہل علم نے اجتہادکے لیے اصل شرط دلیل کی قوت کو قرار دیا ہے اور جب ایک شخص دلیل یعنی کتاب وسنت وغیرہ ہی سے ناواقف ہو تو وہ اپنے اجتہاد کی بنیاد دلیل پر کیسے رکھے گا؟ کیا دلیل صرف عقل ِمحض کا نام ہے؟تیسرا نکتہ یہ ہے کہ ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹرجو علوم ِشرعیہ سے ناواقف ہے اورجدیدیت پسند اہل علم کے بقول اجتہاد کرے گا تو کیااس کا اجتہادکتاب و سنت کے خلاف نہیں جائے گا؟ وہ کتنے ہی مسائل میں محض اپنی عقل سے اجتہاد کرے گاجبکہ وہ مسائل قرآن و سنت میں صریحا ً یا اشارتاً یا ضمناً یا علت کے طریق سے بیان ہو چکے ہوں گے تو کیا کتاب وسنت کی نصوص کے خلاف اجتہاد شرعاًحرام نہیں ہے؟ چوتھی بات یہ ہے کہ اجتہاد محض عقلی رائے پیش کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ اجتہاد سے مراد کتاب وسنت کی وسعتوں اورگہرائیوں سے کسی مسئلہ میں رہنمائی حاصل کرناہے۔اجتہاد اللہ کا حکم معلوم کرنے کے لیے کیا جاتا ہے نہ کہ کسی انسان کا،اور اللہ کے احکامات کا مأخذ کتاب وسنت ہیں نہ کہ انسانی عقل۔جدیدیت پسند اہل علم کی اصل غلطی یہ ہے کہ وہ بھی معتزلہ کی طرح انسانی عقل و فطرت کو اللہ کے حکم کا مأخذ مانتے ہیں اور اس بات کے بھی قائل ہیں کہ مسائل کی ایک کثیر تعداد ایسی ہے کہ جن میں قرآن وسنت ہماری کوئی رہنمائی نہیں کرتے ۔اگر اس مفروضے کو درست مان بھی لیا جائے تو پھر بھی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر یا ماہر معاشیات، جوکتاب و سنت سے ناواقف ہے، کو اس بات کا علم کیسے ہو گا کہ جس مسئلے میں وہ اجتہاد کرنے چلا ہے، اس بارے کتاب وسنت واقعتا خاموش ہیں۔اگر کوئی ایم بی بی ایس ڈاکٹر یا ماہر معاشیات اس مسئلے کا حل یوں نکالتا ہے کہ وہ محض اپنی عقل سے رائے دینے سے پہلے کسی عالم سے پوچھ لے کہ اس مسئلے میں کوئی واضح نص موجود ہے یا نہیں‘ تو پھر وہ اس عالم کا مقلد ہو گا نہ کہ مجتہدشمار ہو گا۔بہر حال اس قسم کے جدید نظریات سے قطع نظر ہم یہاں یہ بیان کررہے ہیں کہ علماے سلف نے کسی مجتہد کی اہلیت کے لیے کیا بنیادی شرائط طے کی ہیں۔ ڈاکٹر محمد اقبال رحمہ اللہ کے بیٹے جسٹس (ریٹائرڈ)ڈاکٹر جاوید اقبال قطعی نصوص کی موجودگی میں اجتہاد کو جائز سمجھتے ہیں۔ ان کے بقول ’’قرآن کے مقرر کردہ وراثت کے حصص میں رد وبدل ہو سکتا ہے اور وہ ایک ایسی فقہ
Flag Counter