Maktaba Wahhabi

52 - 106
وضع کردہ ایک اصطلاح کو اپنے معانی پہنا دیں۔لہٰذا وہ حضرات جو تصور اجتہاد کے ذریعے فقہ اسلامی کی تشکیل جدید یا تعبیر نو کے خواہاں ہیں‘ ان سے گزارش کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کے لیے کوئی علیحدہ اصطلاح وضع کریں مثلاً تجدید‘ تشکیل‘ تعبیرنو وغیرہ۔ روایت پسند علما کی اصطلاح ِاجتہادکئی صدیوں سے ایک ہی تصور اور مفہوم کو ادا کرنے کے لیے چلی آ رہی ہے ‘ اس میں بگاڑ پیدا کرنا اخلاقاً درست نہیں ہے۔جب ایک لفظ کے معنی و مفہوم پر امت کا اتفاق ہو گیا تو اب اس لفظ کو کسی اور معنی کے لیے استعمال کرنا زبان کو بھی بگاڑنے کے مترادف ہے اور لوگوں کی غلط راستہ کی طرف رہنمائی کے بھی مترادف ہے۔ الفاظ و معانی کا رشتہ باہم لازم و ملزوم کا ہے ۔ہر زبان میں یہ طریقہ کار ہے کہ اہل زبان اپنے احساسات ، جذبات،معانی،مفاہیم اور افکار کو دوسروں تک پہنچانے کے لیے کچھ الفاظ مقرر کرتے ہیں۔اس کو اہل علم یوں تعبیر کرتے ہیں کہ فلاں لفظ کو اہل زبان نے فلاں معانی کے لیے وضع کیا ہے۔ جب اہل زبان ایک لفظ ایک خاص معنی یا تصور کی ادائیگی کے لیے متعین کر لیتے ہیں تو لفظ کے اس معنی کو لغوی مفہوم کہتے ہیں ۔مثلاًعربی زبان میں لفظ ’أبٌ‘ایک خاص معنی ’باپ ‘کی ادائیگی کے لیے وضع کیا گیا ہے ۔لیکن آج کل کے زمانے میں کوئی عرب شاعر یا ادیب یہ بات کہے کہ میں جب ’أب ‘ کا لفظ اپنی نثر یا نظم میں استعمال کروں گا تو اس کا معنی میرے نزدیک ’بیٹا‘ہو گا تو یہ جائز نہیں ہے۔ تمام اہل زبان اس کی مخالفت کریں گے‘ کیونکہ اس سے زبان میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے ۔ اسی طرح اہل علم بعض اوقات ان وضع شدہ الفاظ کو اپنے مختلف تصورات کی ادائیگی کے لیے مخصوص کر لیتے ہیں جس کو اصطلاحی مفہوم کہتے ہیں ۔لفظ اصطلاح کا مادہ ’صلح‘ہے ۔یعنی اصطلاح سے مراد یہ ہے کہ اہل علم یا اہل فن کے ایک طبقے کی اس بات پر صلح ہو گئی ہے کہ آئندہ جب وہ یہ لفظ استعمال کریں گے تو اس لفظ سے ان کی مراد کوئی مخصوص تصور ہو گا ۔اس بحث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اصطلاح فرد واحد کی نہیں ہوتی بلکہ جماعت کی ہوتی ہے۔ فرد واحد کی تعبیر کو شاذ کا نام تو دیا جاسکتا ہے اصطلاح نہیں کہا جا سکتا ۔مثلا ًعلماء نے اس بات پر اتفاق کر لیا ہے کہ جب ہم لفظ ’کتاب اللہ‘ بولیں گے تو اس سے ہماری مرادقرآن ہو گی ۔اب اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں جب یہ لفظ اپنی تحریروں میں استعمال کروں گا تو اس سے میری مرادکتاب مقدس ہوگی‘ تویہ جائز نہیں ہے‘کیونکہ اس سے ذہنی اور فکری انتشار پیدا ہوتا ہے ۔ بعض معاصرین کی طرف سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اجتہاد کی شرائط علماء نے خود سے وضع کرلی ہیں اور ان کا کوئی ثبوت قرآن و سنت میں نہیں ملتا، لہٰذا ہر شخص ہی مجتہد ہے۔جناب غامدی صاحب اور ان کے شاگرد سید منظور الحسن صاحب اجتہاد کی شرائط پر نقد کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اس بنا پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اجتہاد کے لیے کسی طرح کی کوئی قد غن نہیں ہے۔یہ دروازہ ہر مسلمان کے لیے
Flag Counter