Maktaba Wahhabi

51 - 106
رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’لغوی اعتبار سے تو اجتہادکا معنی ہے کوشش کرنا‘ لیکن فقہ اسلامی کی اصطلاح میں اس کا مطلب ہے وہ کوشش جو کسی قانونی مسئلے میں آزادانہ رائے قائم کرنے کے لیے کی جائے۔‘‘ [1] اسی طرح جاوید احمد غامدی اور منظور الحسن صاحب لکھتے ہیں: ’’اجتہاد کا لغوی مفہوم کسی کام کو پوری سعی و جہد کے ساتھ انجام دینا ہے۔ اس کا اصطلاحی مفہوم یہ ہے کہ جس معاملے میں قرآن وسنت خاموش ہیں‘ اس میں نہایت غور و حوض کر کے دین کی منشا کو پانے کی جدوجہد کی جائے...اس اصطلاح کو اگر مذکورہ روایت کی روشنی میں سمجھا جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ اجتہادسے مراد اپنی عقل و بصیرت سے ان امور کے بارے میں رائے قائم کرنا ہے جن میں قرآن وسنت خاموش ہیں یا انہوں نے کوئی متعین ضابطہ بیان نہیں کیا۔‘‘ [2] ڈاکٹر اقبال رحمہ اللہ اور جاوید احمد غامدی صاحب نے اجتہاد کی جو تعریف بیان کی ہے وہ ائمہ سلف کا تصور اجتہاد نہیں ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اجتہاد کے نام پر اس وقت جس قدر متجددانہ افکار پیش کیے جا رہے ہیں‘ ان سب کی بنیاد ڈاکٹر اقبال کی تعریف اجتہاد ہے، تو بے جا نہ ہوگا۔ ڈاکٹر اقبال کی تعریف کا سہارا لیتے ہوئے معاصرین کی ایک جماعت قرآن سے ثابت شدہ مجمع علیہ حدود الٰہی کو بھی اجتہاد کا محل قرار دیتی ہے تودوسرا گروہ ہر دوسرے مسئلے کے بارے یہ کہہ کر کہ اس میں قرآن وسنت خاموش ہے ، عقل محض سے رائے پیش کرنا شروع کر دیتا ہے۔ ڈاکٹر اقبال رحمہ اللہ ایک مخلص مسلمان اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والے انسان تھے لیکن علوم شرعیہ ان کا میدان نہیں تھا۔وہ برصغیر میں پائے جانے والے تقلیدی جمود کی انتہاء کو امت مسلمہ کی ترقی و نشوونما میں ایک بہت بڑی رکاوٹ سمجھتے تھے ، جس کی وجہ سے وہ اجتہاد کی اہمیت پر زور دیتے تھے ۔اور غالباًیہی وجہ ہے کہ ان کے خطبات میں ایک مکمل خطبہ’اجتہاد‘ کے موضوع سے متعلق بھی ہے۔ڈاکٹر اقبال﷫ معروف معنوں میں نہ تو کوئی مجتہد تھے اور نہ ہی فقیہہ بلکہ وہ ایک فلسفی، مفکر، شاعر اور داعی اسلام تھے۔ اسی طرح کتاب و سنت اور ان سے مستنبط شدہ مآخذ و مصادر کی روشنی میں کسی نئے مسئلے کا حل تلاش کرنا تو اجتہادہے لیکن محض عقلی رائے بیان کر دینا اجتہاد نہیں ہے ۔ ہم یہ بھی کہنا چاہیں گے کہ اگر کوئی صاحب ائمہ سلف کے تصور اجتہاد ہی کی روشنی میں اجتہاد کی اپنی کوئی نئی تعریف پیش کرتے ہیں تو صرف الفاظ و اسلوب کا فرق روا رکھنے میں کوئی ملامت نہیں ہے لیکن یہ عمل اخلاقاً و شرعاً بالکل بھی جائز نہیں ہے کہ ہم سلف صالحین کی
Flag Counter