[1] پس روایت پسند علما کے نزدیک اجتہاد کا معنی ومفہوم’کسی عالم دین کا، نئے پیش آمدہ مسئلہ کا شرعی حکم ، کتاب وسنت کی نصوص کی گہرائیوں اور وسعتوں میں تلاش کرنے کے لیے ،انتہائی جدوجہد کرنا ہے۔ اس مفہوم کو یوں بھی بیا ن کیا جا سکتا ہے کہ روایت پسند علما کے نزدیک اجتہاد’فقہ الواقع پر کتاب وسنت کی نصوص کے اطلاق کا نام ہے۔یعنی اجتہاد کتاب وسنت سے باہر عقل محض سے کوئی آزادانہ رائے قائم کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ کتاب وسنت میں ہی مسائل کی تلاش کا نام ہے۔ ہاں! البتہ ہم اس بات کی وضاحت کرنا چاہیں گے کہ بعض معاصر علماء نے کسی حدیث کے صحت وضعف کی تحقیق کو بھی اجتہادکہا ہے لیکن ہماری رائے میں یہ اجتہاد نہیں ہے کیونکہ سلف صالحین کی متفق علیہ تعریف کے مطابق اجتہاد احکام شرعیہ کی تلاش کا نام ہے نہ کہ نصوص شرعیہ کی تلاش۔کسی حدیث کو مقبول یا مردود قرار دینے کے لیے ایک مجتہد کی جدوجہد استخراج یا استنباط کے طریق سے کسی حکم شرعی کو معلوم کرنے کے لیے نہیں ہوتی ہے بلکہ یہ در حقیقت نص کی تلاش ہے اور نص کی تلاش کو أئمہ سلف اجتہاد شمار نہیں کرتے اور جب یہ اجتہاد نہیں ہے تو کسی حد یث کی سند کی تحقیق ’مجال الاجتھاد‘میں داخل نہ ہو گی۔پس اگر ہم حدیث کی سند کی تحقیق کو بھی اجتہاد شمار کریں گے تو تمام محدثین اور أئمہ جرح و تعدیل بھی مجتہدین قرار پائیں گے۔ اس بات کو یوں سمجھیں کہ اگر کوئی مجتہدکافی بھاگ دوڑ کے بعد اس نتیجے تک پہنچتا ہے کہ زیر تحقیق روایت ’صحیح ‘ہے تو اب اس روایت سے جوحکم شرعی ثابت ہو گا وہ اس روایت کی نص سے ثابت ہو گا‘نہ کہ مجتہد کے اجتہاد سے ہو گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ مجتہدین کا اصل میدان نصوص شرعیہ سے احکام کا استنباط و استخراج ہے نہ کہ احادیث کی تصحیح و تضعیف۔کسی حدیث کی صحت و ضعف یا ردو قبول میں اہل فن یعنی أئمہ جرح و تعدیل و أئمہ محدثین کا قول معتبر ہو گا نہ کہ فقہاء کا۔امام ابو حنیفہ اور امام مالک رحمہم اللہ وغیرہ نے اپنے زمانوں میں روایت کی جانے والی احادیث کی جانچ پڑتال کے لیے کچھ اصول وضع کیے تھے جو اس وقت کے حالات کے مطابق بالکل صحیح تھے لیکن حدیث کی تحقیق کے لیے دائمی اصول وضع کرنا ان حضرات کے پیش نظر نہ تھاکیونکہ حدیث کی تحقیق و تخریج ان کی علمی کاوشوں کا میدان نہیں تھا۔ جدیدیت پسند اہل علم کا تصور اجتہاد اجتہاد کے معاصر جدید تصور کی بنیاد ڈاکٹرمحمد اقبال رحمہ اللہ (متوفی1938م)کی تعریف ہے۔ ڈاکٹر محمد اقبال |