امام بیضاوی رحمہ اللہ (متوفی 685ھ)نے امام أبو اسحاق شیرازی کی تعریف کو ’طلب‘ کی بجائے’درک‘ کے الفاظ سے بیان کیا ہے۔ ان کے بقول "وهو استفراغ الجهد في درك الأحکام الشرعیة"[1] یعنی شرعی احکام کو پانے کے لیے انتہائی درجے میں کوشش کرنا اجتہادہے ۔‘‘ ابن عبد الحق الحنبلی رحمہ اللہ (متوفی 739ھ)نے ’طلب‘ کی بجائے ’تعرف‘ کا لفظ استعمال کیا ہے اور احکام کے ساتھ ’شرعی‘ کی قید بھی ہٹا دی ہے۔[2] علی بن عبد الکافی السبکی رحمہ اللہ (متوفی 756ھ)نے بھی امام بیضاوی رحمہ اللہ کی تعریف کو اختیار کیا ہے۔[3] جبکہ ابن اللحام رحمہ اللہ (متوفی 803ھ)نے اس تعریف میں ’طلب‘ کی جگہ ’تعرف‘ کالفظ استعمال کیاہے۔ [4] ا بن مفلح الحنبلی رحمہ اللہ (متوفی 763ھ )نے بھی امام بیضاوی رحمہ اللہ کی تعریف کو اختیار کیا ہے لیکن انہوں نے فقیہ کی قید کا اضافہ کر دیا ہے جو کہ اس تعریف کا مزید ارتقاء اور بیان ہے۔وہ لکھتے ہیں: "استفراغ الفقیه وسعه لدرك حکم شرعي" [5] یعنی کسی فقیہ کا حکم ِشرعی کو پانے کے لیے اپنی کوشش کو کھپا دینا ‘اجتہاد ہے ۔‘‘ ابن النجار (متوفی 972ھ)نے ابن مفلح حنبلی کی تعریف کو بیان کیاہے۔ [6] شاہ ولی اﷲ دہلوی رحمہ اللہ (متوفی 1176ھ)نے امام بیضاوی ہی کی تعریف کو اختیار کرتے ہوئے اس میں دلائل شرعیہ کی قید کا اضافہ کیا ہے۔[7] شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ (متوفی 1246ھ)نے شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ کی اسی تعریف کو اختیار کیا ہے لیکن احکام کے ساتھ ’أفاعیل‘ کی قید بڑھا دی ہے جو کہ اس تعریف کا مزید بیان |