الحصول ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ ہمیں صرف اسی چیز کا مکلف بناتے ہیں کہ جس کی ہم طاقت رکھتے ہیں اور جس شرعی حکم کے وجود کا علم تمام لوگوں کے لیے ناممکن الحصول ہو تو اللہ تعالی نے اس کا ہمیں کبھی بھی مکلف نہیں بنایا۔ [1] چوتھی تعریف امام الجوینی المعروف بامام الحرمین (متوفی 478ھ)لکھتے ہیں: "وأما الاجتهاد فهو بذل الوسع في بلوغ الغرض" [2] یعنی اجتہاد سے مرادکسی مقصودتک پہنچنے کے لیے اپنی طاقت کھپا دینا ہے۔ شیخ عبد اللہ بن صالح الفوزان﷾ اس تعریف کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’یہ اجتہادکی عام تعریف ہے جو اس کی لغوی تعریف کے قریب ہے۔پس اس تعریف میں حکم شرعی کی قید لگانا ضروری ہے کیونکہ امام صاحب کی مراد اجتہاد کی بحث ہے جو کسی شرعی حکم کے اثبات کا طریقہ ہے۔پس اس تعریف میں غرض سے مراد مطلوب شرعی حکم ہے۔ ‘‘[3]شیخ فیصل بن عبد العزیز آل مبارک (متوفی 1376ھ )نے بھی امام جوینی کی تعریف کو اختیار کیا ہے۔ [4] امام ابو اسحاق شیرازی(متوفی 476ھ)نے اس تعریف کو نسبتاً وضاحت سے بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: "استفراغ الوسع وبذل المجهود في طلب الحکم الشرعي" [5] یعنی کسی شرعی حکم کی تلاش میں اپنی قوت کو صرف کرنا اور اپنی صلاحیتوں کو پوری طرح کھپا دیناہے۔‘‘ یہ تعریف دراصل مذکورہ بالا تعریف کا ارتقاء اور بیان ہے۔اس تعریف میں ’غرض‘ کی تشریح ’حکم شرعی‘ سے کی گئی ہے۔امام ابن العربی المالکی (متوفی 543ھ)نے اسی تعریف میں ’غرض‘ کی جگہ ’صواب‘ کے لفظ کو بیان کیاہے ۔ [6] |