Maktaba Wahhabi

37 - 106
خرچ کرنے کے ساتھ مخصوص ہیں کہ جن میں اللہ کی طرف سے کوئی ایسی دلیل موجود نہ ہو جو ان مسائل میں اللہ کے مطلوب کے علم تک پہنچانے والی ہو۔جن مسائل میں اللہ کی طرف سے کوئی دلیل موجود ہو تو ان مسائل کی دلیل کی تلاش کو اجتہاد نہیں کہتے۔ [1] ایک اور مقام پر اس تصور کی وضاحت میں لکھتے ہیں کہ اجتہاد کا لفظ شریعت میں تین معانی میں استعمال ہوتا ہے، ان میں سے ایک قیاس شرعی ہے۔دوسرا ظن غالب کی بنیاد پر کوئی حکم جاری کرنا ہے جیسا کہ کعبہ کی جہت کو تلاش کرنے میں اس شخص کا اجتہاد ہے کہ جس کے سامنے کعبہ موجود نہ ہو اور تیسری قسم أصول استحسان سے استدلال کر نا ہے ۔[2] امام شافعی رحمہ اللہ ، امام ابوبکر جصاص رحمہ اللہ کی بیان کردہ اجتہادکی پہلی اور دوسری قسم دونوں کوبیک وقت اجتہاد اور قیاس کا نام دیتے ہیں لیکن اجتہاد کی تیسری قسم کاشدت سے انکار کرتے ہیں ۔[3] امام شافعی رحمہ اللہ نے اگرچہ اپنے اجتہادات میں استحسان کے علاوہ بعض دوسرے قواعد عامہ مثلاً سد الذرائع اور مصلحت وغیرہ کو استعمال کیا ہے لیکن امام شافعی رحمہ اللہ اور بعض دوسرے فقہا مثلاً امام احمد ، امام ابن تیمیہ اور امام ابن قیم رحمہم اللہ وغیرہ ان اصولوں سے استدلال کو قیاس کی بحث کے تحت لاتے ہیں، علیحدہ سے مستقل بالذات مأخذ کے طور بیان نہیں کرتے۔ [4] تیسری تعریف امام ابن حزم اندلسی رحمہ اللہ (متوفی 456ھ)لکھتے ہیں کہ شریعت میں اجتہاد سے مراد کسی مسئلے کا حکم تلاش کرنے میں اپنی طاقت کواس جگہ لگا دینا ہے جہاں وہ حکم پایا جاتا ہو۔دیانت دار علما میں سے کسی کا بھی اس تعریف سے کوئی اختلاف نہیں ہے۔[5] آگے چل کر اس بحث کو مزید نکھارتے ہوئے فرماتے ہیں کہ شریعت کے تمام احکامات عام علما کے لیے موجود ہیں، اگرچہ شریعت کے بعض احکامات کے وجود کا علم بعض لوگوں کے لیے مشکل ہوتا ہے لیکن یہ بات محال اور ناممکن ہے کہ شرعی احکام کے وجود کا علم تمام لوگوں کے لیے مشکل اور ناممکن
Flag Counter