قانونی منہج تحقیق کے سانچے میں ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ڈاکٹر طفیل ہاشمی لکھتے ہیں: ’’کسی واقعہ کی صحت کو جانچنے کے لیے یہی کافی نہیں ہوتا کہ اس کو بیان کرنے والا شخص قابل اعتماد ہے۔ بل کہ اگر وہ واقعہ ایسا ہے کہ عام تجربے اور مشاہدے کے خلاف ہے، گرد و پیش کے واقعات سے مناسبت نہیں رکھتا، عقل اس کے وقوع کو تسلیم نہیں کرتی یا جس شخص سے وہ واقعہ منسوب کیا گیا ہے اس کی عام زندگی اس کے وقوع پذیر ہونے سے ابا کرتی ہے تو اس واقعے کی صداقت جانچنے کے لیے مزید تحقیق و تفتیش کی ضرورت ہوتی ہے۔ روایت حدیث میں چوں کہ راوی کے فہم و سماع کی وجہ سے فرق پڑنے کا امکان ہوتا ہے اور جوں جوں سلسلۂسند طویل ہو یہ امکان اسی قدر بڑھتا جاتا ہے۔ مزید برآں وضع حدیث کی وجہ سے یہ تحقیق اور بھی ضروری ہو جاتی ہے۔ اس لیے محدثین و فقہا نے قبول روایت کے لیے متن حدیث کی تحقیق کے بھی اصول وضع کیے ہیں۔‘‘ [1] لیکن فن درایت حدیث کا میدان مختلف ہونے کی بنا پر اس فن کی اساس خبر و روایت پر ہے ۔ اس میں تحقیق و تفتیش کے حوالے سے بنیادی حیثیت سند و روایت کو دی جاتی ہے جب کہ متن من حیث المتن یا واقعہ من حیث الواقعہ کو بھی اگر اس میں اہمیت دی جاتی ہے تو وہ بھی سند کی قبیل سے ہی دی جاتی ہے۔چناں چہ ائمہ حدیث نے تحقیق کے اسی منہج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: امام عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ (متوفی 181ھ)فرماتے ہیں: "بيننا وبين القوم القوائم يعني الاسناد" [2] ’’ہمارے درمیان اور لوگوں کے درمیان مضبوط بنیادیں ہیں یعنی اسناد ہیں۔‘‘ امام شافعی رحمہ اللہ (متوفی 204ھ)فرماتے ہیں: "مثل الذي يطلب الحديث بلا اسناد كمثل حاطب ليل بحمل حزمة حطب وفيه أفعي ولا يدري" [3] ’’بلاسند حدیث طلب کرنے والے کی مثال رات کو لکڑیاں چننے والے اس شخص کی طرح ہے جو لکڑیوں کی گٹھری اٹھاتا ہے لیکن نہیں جانتاکہ اس میں ایک سانپ بھی چھپا ہوا ہے۔‘‘ |