Maktaba Wahhabi

106 - 106
امام شعبہ رحمہ اللہ (متوفی 160ھ)کا قول ہے: "كل حديث ليس فيه أنا وحدثنا فهو خل وبقل" [1] ’’ہر وہ حدیث جس میں" أنا" اور "حدثنا " نہیں وہ سرکہ اور سبزی کی مانند ہے۔‘‘ 2۔استنباطی منہج تحقیق اس سے مراد وہ منہج ہے جس میں ایک محقق نصوص کے مطالعے اور تفہیم میں عقلی و نفسیاتی اعتبار سے انتہائی زیادہ محنت کرتا ہے۔ ایک مسئلہ کے متعلقہ تمام نصوص کا تجزیہ و تحلیل کرکے ان سے اصول نکالتا ہے۔ اور پھر انہیں واضح دلائل کے ساتھ مضبوط کرتا ہے۔مسلم فقہا نے اسلامی تعلیمات کی راہنمائی اور دائرے میں رہتے ہوئے تین مناہج استنباط اپنائے ہیں جنہیں اہل حدیث، اہل رائے اور اہل ظاہر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اگرچہ ان میں سے ہر ایک کا جداگانہ نوعیت کا منہج استنباط ہے تاہم ہر منہج شرعی تعلیمات کے دائرے میں محدود ہے۔ اس سلسلے میں جس فن سے معاونت لی جاتی ہے اسے علم ’اصول فقہ‘ کہتے ہیں۔ قرآن میں استنباط کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ اللہ کا فرمان ہے: ﴿ وَ اِذَا جَآءَهُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِهٖ١ وَ لَوْ رَدُّوْهُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَ اِلٰى اُولِي الْاَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِيْنَ يَسْتَنْبِطُوْنَهٗ مِنْهُمْ ﴾ [2] ”یہ لوگ جہاں کوئی ا طمینان بخش یا خوفناک خبر سن پاتے ہیں اسے لے کر پھیلا دیتے ہیں ، حالانکہ اگر یہ اسے رسول اور اپنی جماعت کے ذمہ دار اصحاب تک پہنچائیں تو وہ ایسے لوگوں کے علم میں آجائے جو ان کے درمیان اس بات کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ اس سے صحیح نتیجہ اخذ کر سکیں ۔‘‘ امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ (متو فی 310ھ)فرماتے ہیں: "وكل مستخرج شيئًا كان مستترًا عن أبصار العيون أو عن معارف القلوب، فهو له:"مستنبط"، يقال:"استنبطت الركية"، إذا استخرجت ماءها،"ونَبَطتها أنبطها"، و"النَّبَط"، الماء المستنبط من الأرض" [3] ’’استنباط سے مراد ہر اس چیز کو نکالنا ہے جوبصارت یا بصیرت سے پوشیدہ ہو اورجب آپ کنویں سے پانی نکالیں تو
Flag Counter