Maktaba Wahhabi

103 - 106
کی اساس استقرا اور تجربے پر تھی مثلاً فلکیات، طبعیات اور کیمیا وغیرہ۔ اہل عرب اور اہل اسلام کے سیاسی زوال کے بعد مغربی دنیا میں احیائے علوم کی تحریک کا آغاز ہوا اور دنیاوی علوم و فنون میں علم و معرفت کی سیادت ان کے ہاتھ میں چلی گئی۔ اہل مغرب یونانی فکر کے اسیر تھے لہٰذا انہوں نے جب عربی علمی میراث کا مطالعہ کیا تو یونانی سحر سے آزاد ہونا شروع ہوئے۔ مغربی سکالرز اور سائنس دانوں نے استقرائی طرزِ استدلال اپنا نا شروع کیا۔ فکری جمود ٹوٹنے لگا اور ارسطوئی قیاس کی اہمیت کم ہونے لگی۔ راجر بیکن (متوفی1294ء)وہ پہلا فلسفی ہے جس نے منطقی قیاس کے بخیے اکھاڑے۔اس نے حقیقت کی معرفت حاصل کرنے کے لیے مصنوعی کی بجائے فطری طریقے پر زور دیا۔ اس کے دعوے سے ایک بھونچال پیدا ہوگیا۔ روایتی اور ارسطوئی طرزاستدلال کے قائلین اس پر حملہ آور ہو گئے۔ تاہم بظاہر اسے ایک دفعہ دفن کر دیا گیا لیکن زیر سطح ایک ارتعاش ضرور باقی رہا۔ پھر ایک طویل عرصہ بعد فرانسس بیکن (متوفی1626ء)نے ا س لاغر بدن میں روح پھونکی۔ اس نے’تجرباتی منہج تحقیق کے قواعد ‘پر ایک کتاب لکھی۔ اس نے واضح کیا کہ حقیقت تک پہنچنے کے لیے صحیح راستہ ’استقرائی‘ ہے جس کی بنا تجربہ اور مضبوط عقلی قیاس ہو۔ بیکن کو جدید منطق کا مؤسس کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد ڈیکارٹ (متوفی1650ء)آیا۔ اس نے استقرائی کے علاوہ دوسرے ہر منہج کا انکار کردیا۔اور تمام علوم کے لیے صرف ایک ہی منہج استدلال کو برحق تسلیم کیا۔ [1] علم و نظر کی دنیا میں درج بالا مناہج استدلال کے حوالے سے طویل عرصہ ایک بحث چلتی رہی کہ جس نے کئی رخ اور رجحان اختیار کیے۔ تاہم بالآخر بیسویں صدی میں دونوں کو ہی تسلیم کر لیا گیا البتہ ہر ایک کا فطری دائرہ متعین کیا گیا۔ اگرچہ بحیثیت مجموعی اب بھی استقرائی طرز استدلال کو اہمیت زیادہ دی جاتی ہے لیکن اس کے باوجود عمومی طور پر یہی کہا جاتا ہے کہ یہ دونوں ہی انسانی فکر کے رجحانات اور راستے ہیں۔ دونوں کے اپنے اپنے فوائد و ثمرات ہیں۔ جب ان میں سے کوئی بھی اپنی فطری حدود سے تجاوز کرتا ہے تو صحتِ نتائج پر حرف آنا شروع ہو جاتا ہے۔ مناہجِ تحقیق کی اقسام () مرورِ زمانہ کے ساتھ ساتھ مناہج تحقیق میں تبدیلی اور ارتقا ہوتا رہا ہے۔ انسان نے حقیقت اور معرفت تک رسائی حاصل کرنے کے لیے تحقیق کے مختلف طریقے اپنائے ہیں۔ جیسے جیسے تحقیق کا میدان بدلتا رہا ویسے ویسے
Flag Counter