Maktaba Wahhabi

102 - 106
مدلول قریبی معنی ہی دیتا ہے۔ ایک یہ کہ چند فکری یا عملی مظاہر کے مجموعے کی نمایاں نشانی کو منہج کہتے ہیں ... اسی طرح یہ ایک ایسے محدود راستے کے معنی میں بھی آتا ہے جو انسان کو ایک مرحلہ سے دوسرے مرحلے تک پہنچائے۔ اس لحاظ سے اگر ہم ہر تحقیق کو منہج کہہ دیں تو غلط نہ ہوگا۔ چناں چہ منہج تحقیق میں وحدت کو کہا جائے گا جو اپنی ذات میں مکمل اور مستقل ہواور جو کئی طرح کے ظاہری و معنوی اسالیب و ذرائع پر مشتمل ہو۔ ‘‘ ڈاکٹر عبد الہادی لکھتے ہیں: "المنهج مجموعة من القواعد العامةيعتمدها الباحث في تنظيم ما لديه من أفكار أو معلومات من أجل أن توصله إلي النتيجة المطلوبة. " [1] ’’منہج ان عمومی قواعد کا نام ہے جن کی بنا پر محقق اپنے افکار اور معلومات کو مرتب کرتا ہے۔ جس سے اس کا مقصد اپنے مطلوبہ نتیجہ تک رسائی حاصل کرنا ہوتا ہے۔‘‘ مناہج تحقیق کا آغاز و ارتقا اگر ہم ان قدیم تہذیبوں کا جائزہ لیں کہ جنہوں نے انسانی تمدن اور ثقافت کو فروغ دیا تو ان میں ایک اہم تہذیب مصری تہذیب ہے۔مصریوں نے سائنسی علوم میں ترقی کے لیے نمایاں کاوشیں کیں۔ اہرام مصر ان کی کاوشوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ دوسری طرف یونانیوں میں ارسطو نے ’قیاسی منہج‘ کے ایسے قواعد مرتب کیے کہ جن میں مسلمات سے استدلال کا آغازکرکے مختلف فیہ نتائج اخذ کیے جاتے تھے۔ اس کی طرف سے پیش کیے گئے منطقی اصولوں کو بحث و نظر اور جدل و مکالمات میں صدیوں بطور معیار تصور کیا جاتا رہا۔ مفکرین اور اہل عرب طویل عرصہ مشائی طرز استدلال کی پابندی کرتے رہے۔اس دوران اہل عرب نے ارسطو کی کتب کے ترجمے کیے، شروحات لکھیں، خلاصے اور اضافے مرتب کیے۔ ایک مدت مدید کے بعد عرب علما کو یہ احساس ہوا کہ ارسطوئی قیاس بعض علوم میں کار آمد نہیں کیوں کہ یہ ایک ریاضیاتی قیاس ہے جو کلی سے شروع ہو کر جزئی پر ختم ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ ریاضی میں کام دے سکتا ہے تاہم سائنسی اور معاشرتی علوم میں یہ مفید نہیں کیوں کہ یہاں استدلال کی بالکل ہی برعکس صورت حال ہے۔ یہاں جزئیات سے آغاز کرکے کلیات اور عمومیات کی طرف جانا پڑتا ہے۔ بہرحال اس منزل پر پہنچنے کے بعد انسانی فکر نے دائرہ تحقیق میں ایک جداگانہ سفر کا آغاز کیا۔ اب انسان نے عقلی غورو فکر کی دنیا میں مشاہدے اور تجربے کو اہمیت دینا شروع کر دی۔ ایسے علوم کو زیادہ ترجیح دی جانے لگی جن
Flag Counter