Maktaba Wahhabi

90 - 95
کرام کو وقتاً فوقتاً دعوتِ طعام دیتے اور ان کے اِکرام کو اپنے لیے بڑی سعادت سمجھتے۔ ایک دفعہ آپ نے ایک نابینے عالم محمد بن حازم ابو معاویہ الضریر سے احادیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہ سننے کا شوق ظاہر کیا۔ جب اُنھوں نے احادیث سنانا شروع کیں تو جہاں بھی حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نامی اسم گرامی آتا، آپ فوراً صلی اللہ علیہ وسلم علیٰ سید ی پڑھ لیتے اور جس حدیث میں کوئی نصیحت آموزبات ہوتی تو آپ اسے سن کر رو پڑتے حتیٰ کہ آپ کے آنسوؤں سے مٹی تر ہو جاتی۔ ابو معاویہ الضریر فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے آپ کے گھر میں کھانا کھایا پھر جب میں ہاتھ دھونے کے لیے اُٹھا تو آپ نے میرے ہاتھوں پر پانی بہایا اور میں نابینا ہونے کی وجہ سے اُنھیں دیکھ نہ سکا، جب میں ہاتھ دھو کر واپس آیا تو آپ نے مجھ سے پوچھا۔ اے ابو معاویہ! آپ کو پتہ ہے کہ آپ کے ہاتھ دھلوانے کی سعادت کس نے حاصل کی؟ میں نے جواب دیا کہ مجھ نابینے کو کیا پتہ کہ وہ کون تھا؟ آپ نے فرمایا: یہ سعادت خود امیر المؤمنین نے حاصل کی ہے۔ تو میں نے اُن کے لیے دعا کی تو آپ نے فرمایا: میں نے علم کی تعظیم کی خاطر ایسا کیا ہے۔ امیر المؤمنین کا علماے کرام کے ساتھ ایسا برتاؤ ان کی فرزانگی عقل اور شرافتِ ذاتی کی زبردست دلیل ہے۔ ایک دفعہ آپ حج پر گئے اور اپنے ساتھ اپنے بیٹوں کو بھی لے گئے تاکہ وہ علماے ربانیین کے ساتھ اپنے باپ کے برتاؤ سے سبق حاصل کریں۔ جب آپ حج سے فارغ ہو کر مدینہ منورہ گئے تو آپ نے امام مالک رحمہ اللہ بن انس سے ان کی تصنیف موطأ کی مرویات سننے کا شوق ظاہر کیا اور ان کی طرف پیغام بھجوایا کہ وہ آئیں اور ہمیں احادیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہ سنا جائیں۔ انھوں نے جواب دیا کہ علم کے پاس چل کر آیا جاتا ہے وہ خود کسی کے پاس چل کر نہیں جاتا۔ یہ جواب سن کر ہارون الرشید اپنے بیٹوں سمیت خود اُن کے دروازے پر آیا اور وہاں بیٹھ کر آپ کے نکلنے کا انتظار کرنے لگا، جب آپ باہر آئے تو ہارون الرشید نے کہا: اے ابو عبد اللّٰہ! ایک تو آپ ہمارے بلانے پر بھی نہیں آتے اور جب ہم آتے ہیں تو آپ ہمیں دروازے پر بٹھائے رکھتے ہیں اور باہر ہی نہیں آتے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: اے امیر المؤمنین! آپ جس علم کو سننے آئے ہیں، وہ آپ کے گھرانے سے حاصل کیا گیا ہے اور آپ ہی اس کی عزت و آبرو رکھنے کے زیادہ حق دار ہیں، میں آپ ہی کے گھرانے کے علم کی شان کے پیش نظر اس کی تیاری میں مصروف تھا،اس لیے دیر ہو گئی۔
Flag Counter