Maktaba Wahhabi

62 - 95
تحقیق وتنقید حافظ صلاح الدین یوسف حلالۂ ملعونہ مروّجہ کا قرآنِ کریم سے جواز؟ مجوزین کے دلائل کا ایک تحقیقی و تنقیدی جائزہ عمومِ قرآن کی تخصیص میں، حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے گریز کے نقصانات بہرحال بات ہورہی تھی، قرآنِ کریم کے الفاظ ﴿حَتّىٰ تَنكِحَ زَوجًا غَيرَ‌هُ﴾ کی کہ حدیثِ رسول ((لعن اللّٰه المحلل...)) نے اس نکاح کو خاص کردیا ہے اس نکا ح کے ساتھ جو آباد رہنے کی نیت سے کیا جائے، کیونکہ شریعتِ اسلامیہ میں نکاح کا صرف یہی طریقہ رکھا گیا ہے۔ عارضی نکاح، چاہے وہ متعے کی صورت میں ہو، حلالۂ مروّجہ کی صورت میں ہو یا اب بعض متجددین نے ایک تیسرا طریقہ گھڑا ہے کہ کسی ملک میں تعلیم کے دوران کسی مقیم عور ت سے عارضی طور پر چند مہینوں یا چند سالوں کے لئے نکاح کرلیا جائے؛ یہ سارے ممنوع او ریکسر حرام ہیں۔ اسلام میں نکاح صرف وہی ہے جو ہمیشہ آباد رہنے کی نیت سے کیا جائے او رمذکورہ تینوں صورتوں میں یہ نیت نہیں پائی جاتی بلکہ اس کے برعکس سب میں اغراضِ فاسدہ ہی کارفرما ہیں۔ اسلام اغراضِ فاسدہ کی خاطر نکاح جیسے اہم فریضے کی تقدیس کو خاک میں ملانے کی اجازت کس طرح دے سکتا ہے؟ اس لئے عارضی نکاح کی مذکورہ تینوں صورتیں اسلام میں حرام ہیں اور ان کا ارتکاب کرنے والے ملعون ہیں اور اسی میں فراہی گروپ کی وہ چوتھی صورت بھی آجاتی ہے جوشریعت کے تجویز کردہ حلالے میں ہم بستری کو عمومِ قرآن کے خلاف قرار دیتا ہے۔ اس گمراہی کی بنیاد بھی حدیثِ رسول سے گریز ہی ہے۔ مولانا تقی عثمانی صاحب بھی فرماتے ہیں کہ ''تَنْكِحَ کے عموم کو ہم حدیث (خبر واحد)سے مخصوص نہیں کرسکتے، یہ قرآنِ کریم پر زیادتی ہے۔'' گویا حدیثِ رسول سے قرآن کریم کی تفسیر و توضیح اوراس کے عموم کی
Flag Counter