Maktaba Wahhabi

63 - 95
تخصیص، قرآن پر زیادتی ہے۔ نعوذ باللّٰه من ذلك! محترم ! اوّل تو یہ باتیں منکرین حدیث کی ہیں جو حدیث کو حجت نہیں مانتے۔ اگر آپ بھی صرف انہی حدیثوں کو مانتے ہیں جو خود ساختہ فقہ کے مطابق ہیں اور جو فقہ میں بیان کردہ مسائل کے خلاف ہیں، وہ (نعوذ بالله) قرآن پر زیادتی ہیں اور مردود ہیں، تو منکرین حدیث بھی تو ان حدیثوں کو مانتے ہیں جو ان کی عقولِ حیلہ ساز کے مطابق ہیں (بالکلیہ حدیث کے منکر تو وہ بھی نہیں)، تاہم ان حدیثوں کو وہ بھی قرآن پر زیادتی قرار دے کرردّ کردیتے ہیں جو اُن کے خود ساختہ نظریات کے خلاف ہوتی ہیں اور دلیل اُن کی بھی یہی ہوتی ہےکہ قرآن کے عموم کی تخصیص حدیثِ رسول سے نہیں ہوسکتی۔ جیسے رجم (سنگ ساری) کا مسئلہ ہے۔ منکرین حدیث کہتے ہیں قرآن کریم میں ﴿الزّانِيَةُ وَالزّانى فَاجلِدوا كُلَّ و‌ٰحِدٍ مِنهُما مِائَةَ جَلدَةٍ﴾[1] ''زانی مرد اور زانی عورت، ہرایک کو سو سو کوڑے مارو۔'' عام ہے جس میں کنوارے اور شادی شدہ دونوں شامل ہیں، اس لئے دونوں کی سزا ایک ہی ہے:سو کوڑے۔(فراہی گروہ بھی یہی کہتا ہے جس کا ایک اور نام غامدی گروپ بھی ہے۔) قرآن کے اس عام حکم کی بابت یہ کہنا کہ حدیثِ رسول کی رُو سے یہ سزا صرف غیر شادی شدہ مرد و عورت کے لئے ہے اور حدیث نے اسے صرف کنواروں کے لئے خاص کردیا ہے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی شدہ زانیوں کو رجم کی سزا عملاً دی بھی ہے اور اپنے فرمان کے ذریعے سے شادی شدہ زانیوں کے لئے یہی سزا بیان بھی فرمائی ہے۔ لیکن منکرین حدیث اور فراہی گروہ کا پرنالہ وہیں کا وہیں ہے اور ان کا راگ یہی ہے کہ سزاے رجم کا اثبات قرآن کے عموم کے خلاف اور قرآن پر زیادتی ہے۔ بتلائیے! منکرین حدیث (قدیم و جدید) میں اور فقہ نوازوں میں فرق کیا ہے؟ قرآن کریم کی تفسیر اور حدیث کی حجیت میں دونوں کا طرزِ استدلال اور طرزِ عمل ایک ہے، فرق کہاں ہے؟ دوم:یہ کہنا کہ ہم 'خبر واحد'کے عموم سے قرآن کی تخصیص کے قائل نہیں اور صرف اسے ہی
Flag Counter