Maktaba Wahhabi

64 - 95
قرآن پر زیادتی قرار دیتے ہیں۔تو ہم کہتے ہیں کہ اوّل تو یہ ''دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے۔'' والی بات ہے، یعنی اپنے دل کو مطمئن کرنے یا دل کو دھوکا دینے والی بات ہے کہ ہم حدیث کا انکار نہیں کررہے ہیں، حدیثِ آحاد کا انکار کررہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ حدیث آحاد سے قرآن کے عموم کی تخصیص نہیں ہوسکتی، یہ اُصول کس نے بنایا، یا بتلایا ہے؟ کیا اللہ نے نازل کیا ہے کہ میرا قرآن بہت مقدس ہے، اس کے عموم کی تخصیص حدیثِ آحاد سے نہیں کرنا، یہ میرے مقدس کلام کی توہین یا اس پر زیادتی ہے؟ یا امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے بنایا ہے جن کی تقلید کا دم آپ بھرتے ہیں کہ میرا قول خبر واحد (حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ) سے زیادہ اہم ہے، اس لئے جب خبر واحد سے اس کا ٹکراؤ ہو تو میرا قول اس پر مقدم ہے، اسی لئے آپ مسئلہ زیر بحث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ثابت شدہ صحیح فرمان کو خبر واحد کہہ کر ٹھکرا رہے ہیں، محض اس لئے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک حلالۂ ملعونہ کے ذریعے سے نکاح اگرچہ مکروہ ہے لیکن ہوجاتا ہے۔ تو کیا یہ اُصول امام صاحب یا ان کے تلامذہ صاحبین کا بنایا ہوا ہے؟آخر یہ اُصول کس نے بنایا ہے جو منکرین حدیث کی فکر سے ہم آہنگ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین سے مجرمانہ حد تک بے اعتنائی کا مظہر ہے؟ پھر یہ 'اُصول' اگر اتنا ہی 'مقدس' ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بھی اس کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا تو فقہ کے بہت سے مسائل بھی اس سے ٹکراتے ہیں تو وہاں اس اُصول کو کیوں استعمال نہیں کیا جاتا اور اس سے متصادم فقہ کےمسائل کو کیوں ردّ نہیں کیا جاتا؟ جیسے فقہ حنفی کا مسئلہ ہے کہ حق مہر دس درہم سے کم مقرر کرنا جائز نہیں ہے، حالانکہ قرآن کے عموم سے حق مہر کی کمی بیشی جائز ہے اوراحادیث میں تو بڑی صراحت سے اس کے ثبوت موجود ہیں۔ کیا کم از کم دس درہم حق مہرمقرر کرنے کو لازم قرار دینا، قرآن کے عموم کی تخصیص نہیں ہے؟ عمومِ قرآن کی اس تخصیص کے لئے علماے احناف کے پاس کون سی متواتر حدیث ہے؟ بلکہ ہمار دعویٰ ہے کہ اس فقہی مسئلے کے اثبات کے لئے، جو قرآن و حدیث کے خلاف ہے، علماے احناف کے پاس متواتر حدیث تو کجا کوئی صحیح خبر واحد بھی نہیں ہے۔ یہ فقہی مسئلہ سراسر ضعیف حدیث پر مبنی ہے جبکہ صحیح حدیث کی رُو سے کم سے کم مہر، حتیٰ کہ تعلیم
Flag Counter