عبدالجبار سلفی امیر المؤمنین ہارون الرشید عباسی ہاشمی قارئین کرام! ہماری اسلامی تاریخ بیدار مغز اور روشن ضمیر خلفا،اُمرا، فقہا وصلحا کے ایمان آفریں تذکروں سے معمور ہے۔ لیکن عبیدیوں، قرامطیوں [1] نے جو بااتفاقِ اہل علم یہودی اور مجوسی النسل تھے، اپنے بنی فاطمہ علیہا صلوات اللہ وسلامہ کی اولاد ہونے کا جھوٹا پروپیگنڈا کروا کر مغربِ اقصیٰ کی مسلم مملکتوں پر قبضہ کر لیا اور پھر اپنے بڑوں کی خیبر اور قادسیہ میں شکستوں کا بدلہ چکانے کے لیے اہل السنّہ مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑ دیےاور پھر اپنی سیاہ ترین کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کے لیے اپنے مُتشیّعین(ہم نواؤں)سےمسلمان خلفاوسلاطین کی ایسی تاریخ لکھوائی جو اُن کے دین اور تقویٰ اور روشن کردار کےبالکل برعکس تھی۔ ان کے سیاہ نویسوں نے اپنی تصانیف میں قرامطیوں کے ظلم وستم اور اسماعیلی باطنیوں کے خبثِ باطن اور عبیدیوں کے سبّ وشتم اور سلب ونہب کا تذکرہ آٹے میں نمک برابر بھی نہیں کیا، لیکن خلفاے راشدین اور سلاطینِ اسلام بشمول بنواُمیہ اور بنوعباس کی وقتی مصلحتوں اور اجتہادی لغزشوں کو پہاڑ بنا کر مسلمان نوجوان مردوں اور عورتوں کو اُن کے بزرگوں سے بدگمان کر دیا۔ حالانکہ ان مسلمان نوجوانوں کے روحانی اور نسلی آبا و اجداد اپنی بشری لغزشوں کے باوجود ان دشمنانِ اسلام سے ہزار درجہ بہتر تھے،کیونکہ ان کے جہاد کی برکت سے مملکتِ اسلامیہ کی حدود مشرق کی طرف چین اور مغرب کی طرف فرانس تک وسیع ہو گئی تھیں، جبکہ ان مسلم نما یہودیوں اور |