آثارِ صحابہ نقل کیے ہیں جن میں اس فعلِ حرام کو زنا اور قابلِ رجم قرار دیاگیا ہےجن کو ہم نے بھی پہلی قسط میں بیان کیا ہے۔ اس کے بعد فرماتے ہیں: ''حلالہ کی اس رذالت (کمینگی و خساست) کے باوجود یہ فعل اُن اَشرار میں عام ہے جنہوں نے طلاق کی اجازت کو ایک عادت اور مذاق بنا لیا ہے، بالخصوص اس فتویٰ اورحکم کی وجہ سے کہ ایک ہی مرتبہ تین طلاقیں دینے سے تینوں ہی واقع ہوجاتی ہیں، مسلمانوں کی اکثریت نے اپنے دین کو مذا ق اور تماشا بنا لیا ہے جس کی وجہ سے خود اسلام بدنام ہورہا ہے،حالانکہ اسلام میں ایسی کوئی بات نہیں ہے سوائے ان لوگوں کے جواسلام کے نام پر اس کو عیب ناک کررہے ہیں۔ میں نےلبنان میں ایک عیسائی کو دیکھا جو اسلامی کتابوں وغیرہ کی خریداری اوران کے مطالعے کا بڑا شوقین تھا، بالآخر اس کو ہدایت نصیب ہوگئی اور وہ مسلمان ہوگیا تاہم تصوف کی طرف اس کارجحان رہا۔ مجھے اس نےکہا:اسلام میں مجھے تین عیبوں کے سوا اور کوئی عیب نظر نہیں آیا، اوریہ ممکن نہیں کہ یہ عیب اللہ کی طرف سے ہوں (یعنی لوگوں نے اُن کو اسلام کے نام پر گھڑ لیا ہے، اللہ کے نازل کردہ دین اسلام میں یہ نہیں ہوسکتے۔) ان میں سب سےبدتر عیب حلالہ ہے۔ لیکن جب میں نے اس حلالے کی حقیقت اس پرواضح کی کہ یہ اسلام میں نہیں ہے،بلکہ لوگوں کا اپنا ایجاد شدہ طریقہ ہے تو وہ مطمئن ہوگیا۔''[1] |