یہ ایسی معصیت ہے جس کے مرتکب پر شارع نے لعنت فرمائی ہے اور شارع کسی ایسے فعل پر لعنت نہیں کرتا جو جائز (مشروع) ہو۔ بلکہ ایسے فعل پر بھی لعنت نہیں کرتے جو صرف مکروہ ہی ہو (حرام نہ ہو) جمہور علما کے نزدیک مشہور یہی ہے کہ لعنت انہی گناہوں پر آئی ہے جو کبیرہ ہوں۔ اگر اس کا دوبارہ اعادہ کیا جائے تو وہ حرام ہوجاتا ہے۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص خون کو پیشاب سے پاک کرے حالانکہ وہ پلیدی پر پلیدی ہے (وہ پاک کس طرح ہوگا؟) اما م مالک، امام احمد، امام ثوری رحمہم اللہ ، اہل ظاہر اور ان کے علاوہ ایک بڑی تعداد اہل حدیث واہل فقہ میں سے اسی موقف کی قائل ہے۔'' علامہ رشید رضا مصری مرتب ِافادات مزید لکھتے ہیں: ''الاستاذ الامام (شیخ عبدہ) نے فرمایا: حلالے والانکاح، نکاحِ متعہ سے بھی بدتر ہے اور فساد و عار کے اعتبار سےبھی بہت شدید ہے او رکچھ دوسرے فقہا جو کہتے ہیں کہ یہ کراہت کے ساتھ جائز ہے جب تک اس میں شرط نہ ہو، اس لئے کہ فیصلہ ظاہر پرہوتا ہے، اس میں کار فرما مقاصد اور پوشیدہ باتوں کو نہیں دیکھا جاتا۔ تو ہم کہتے ہیں: ٹھیک ہے، لیکن دین قیم (اسلام) تو یہ ہے کہ ظاہر باطن کا آئینہ دار ہو، ورنہ وہ نفاق ہوگا۔علاوہ ازیں حلالے کی نیت سے نکاح کرنے والا وہ نکاحِ حقیقی نہیں کرتا جو اللہ نے مشروع کیا (حکم دیا) ہے اور اسے بیان کیا ہے۔ یہ ایسا معاملہ نہیں ہے جسے خود انسان جس طرح چاہے کرلے اور نہ اس شخص کی مرضی پر ہے جوبغرضِ حلالہ یہ کام کرواتا ہے اور اس پر اس کےساتھ تعاون کرتا ہے۔ اگر قاضی لا علمی کی وجہ سے ظاہر کو دیکھتے ہوئے ایسے نکاح کےنفاذ کا فیصلہ دیتا ہے، وہ تو معذور گردانا جاسکتا ہے، لیکن اس کا علم رکھنے والا اوراس کا ارتکاب کرنے والا معذور قرار نہیں دیا جاسکتا۔ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نےاس حلالے پر 'اعلام الموقعین' میں تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔''[1] اس کے بعد امام عبدہ رحمہ اللہ نے لعنت والی حدیث اور کرائے کے سانڈ والی حدیث ذکر کرکے وہ |