کفار کے مقابلے میں فولاد تھے، اس قدر ہی آپ علما، فقہا اور صلحاے اُمت کے سامنے بریشم کی طرح نرم تھے۔ امیر المومنین ہارون کی نرم خوئی اور سخاوت کے واقعات امیر المومنین ہارون الرشید قابل رشک کردار کے حامل تھے۔ یہ اپنے دورِ خلافت میں ایک سال جہاد کرتے اور اگلے سال ایک ۱۰۰ محدثین وفقہاے کرام کو ساتھ لے کر حج کرتے اور جس سال خود جہاد پر چلے جاتے تو اس سال تین صد محدثین وفقہا کو زادِ حج دے کرجاتے۔ حاملینِ علوم نبوت کی تعظیم وتوقیر تو وراثتاً اُن کے خمیر میں گندھی ہوئی تھی، ان کے جد امجد سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بذاتِ خود ہاشمی سید ہونے کی وجہ سے اپنے اُستاد کا بے حد احترام کرتے تھے اور اس احترام کی برکت سے ان کو اطرافِ عالم میں ایسی شہرت حاصل ہوئی کہ دنیا اس ہاشمی شہزادے سے حصولِ علم و ادب کی خاطر شہد کے چھتے پر شہد کی مکھیوں کی طرح جمع رہتی تھی۔ امیر المؤمنین سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اپنے اس بھائی کے بارے میں فرماتے تھے: للّٰه در ابن عباس كأنه ينظر إلىٰ الغيب من ستر رقيق[1] ''عبد اللہ بن عباس کوکمال بخشنے والی ذات کس قدر ستودہ صفات ہے۔ وہ تو گویا غیب کی طرف باریک پردے سے دیکھ لیتے ہیں۔'' امیر المؤمنین کو محدثین کرام کی طرح متصل اسناد کے ساتھ حضرت رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایات بیان کرنے کا بڑا شوق تھا۔ چنانچہ وہ جمعۃ المبارک کے خطبے میں کئی مرتبہ متصل سند کے ساتھ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث روایت کرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اتقوا النار ولو بشق تمرة)) [2] ''لوگو! دوزخ کی آگ سے بچو، اگرچہ آدھی کھجور صدقہ کر کے بچنا پڑے۔'' اور بذات ِخود اس کا عملی ثبوت بھی دیتے اور روزانہ ایک ہزار صدقہ کرتے اور نمازِ پنجگانہ کی باجماعت ادائیگی کے ساتھ ساتھ روزانہ ۱۰۰ رکعت نوافل ادا کرتے۔ امیر المؤمنین محدثین |