Maktaba Wahhabi

82 - 95
کو بھگتنی پڑتی ہے اور اس کو چند راتیں چار و ناچار کسی بوالہوس کے پاس گزارنی پڑتی ہیں اور اگر اس کی نیت خراب ہوجائے اور وہ طلاق دینے سےانکار کردے، تو وہ عورت تو پھرعمر بھر اس روگ اور غم میں مبتلا رہے گی کہ اس کی راتیں اس کے پسندیدہ شوہر کے بجائے اس سانڈ کے پہلو میں گزر رہی ہیں جسے وہ پسند نہیں کرتی اور اس کی تو خدمات عارضی طور پر ایک کرائے دار کی حیثیت سے حاصل کی گئی تھیں، لیکن وہ میرا مالک بن بیٹھا۔ ذرا تصور کیجئے! ایک غیرت مند عورت کے لئے یہ تصور کس طرح روح فرسااور اعصاب شکن رہے گا۔ کیا اسلام اس بے انصافی کا علم بردار ہوسکتا ہے؟ علاوہ ازیں اسلام کا حکم ہے کہ عورت کی شادی کرتے وقت اس کی رضا مندی بھی حاصل کرو، اور جو شخص اس کو ناپسند ہو، وہاں بالجبر اس کا عقد مت کرو۔ حلالۂ ملعونہ میں جو نکاح کا ناٹک رچایاجاتا ہے، کیاوہاں اسلام کی اس تعلیم کا کوئی معمولی سا بھی اہتمام کیاجاتاہے؟ وہاں تو صرف اپنی خود ساختہ شرط منوا کر آنکھیں بند کرکے ایک عورت کو ایک مرد کےحوالے کردیا جاتا ہے، چاہے وہ اس کو پسند ہو یا نہ ہو۔ ۳۔ تیسری علت، نسب اورخاندانی نظام کا تحفظ ہے۔ حلالۂ ملعونہ اس کے یکسر خلاف ہے۔ اگر چند راتوں کی ہم بستری سے عورت کو حمل قرار پاجائے تو فی الحال اس بحث کو چھوڑ دیجئے کہ یہ اولاد صحیح النسب ہوگی یا ولد الزنا؟ (حالانکہ حدیث اور آثارِ صحابہ کی روشنی میں یہ ولد الزنا ہے) تاہم زوجِ اوّل کے لئے، جس کےساتھ دوبارہ نکاح کرنے کے لئے یہ حلالۂ ملعونہ ایجاد کیا گیا ہے، یہ اولاد ناقابل برداشت ہوگی، بالخصوص جب کہ اس کی پہلے بھی اولاد ہو۔ اس کی وجہ سےخاندانی نظم میں جو دراڑیں پڑیں گی، وہ محتاجِ وضاحت نہیں۔ کیا اسلام، جو صحیح النسبی اور خاندانی نظام کے تحفظ کا سب سےبڑا علم بردار ہے، اس مذاق کو برداشت کرسکتا ہے؟ ۴۔ چوتھی علت، کرائے کے سانڈوں کاخاتمہ ہے۔ اسلام نےاسلامی معاشرے کو زنا کاری سے بچانے کےلئے دور دور تک بند باندھ دیئے ہیں۔ علاوہ ازیں اس کی نہایت کڑی سزائیں مقرر کی ہیں تاکہ کوئی اس کا ارتکاب کرنےکی جسارت نہ کرے۔ لیکن حلالۂ
Flag Counter