Maktaba Wahhabi

81 - 95
حکمِ لعنت میں بیان کردہ علّت کی حقیقت اس بنیادی وضاحت کی روشنی میں ہم حنفی مفسر کی بیان کردہ علت کا جائزہ لیتے ہیں تو صاف واضح ہوجاتا ہے کہ ان کی بیان کردہ علت کے لئے ان کے پاس کوئی واضح شرعی دلیل اور قرینہ نہیں ہے، بلکہ منحرفین کی طرح ایک خود ساختہ علت ہے جس کی بنا پر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک فرمان سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ وہ حدیث ((لعن اللّٰه المحل)) میں لعنت کی علت طلاق کی شرط كو قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ حدیث کے الفاظ یا دیگر شرعی قرائن سےان کی بات کی قطعاً تائیدنہیں ہوتی' بلکہ اوّل تو دیگر احکامِ شرعیہ کی طرح یہ حکم بھی بغیر کسی علت کے بیان ہوا ہے، اس لئے ہم اپنی طرف سے اس کی علت گھڑ کر اس حکم کو کالعدم نہیں کرسکتے، یہ حکم شریعت کے مقابلے میں ایک نہایت شوخ چشمانہ جسارت ہے۔ ثانیاً اس حکم لعنت پر غور کیا جائے،جیسا کہ مفسرِ مذکور نے غور کیا،لیکن اُنہوں نےچونکہ تقلیدی عینک چڑھائی ہوئی ہے تو اس میں وہی رنگ نظر آیا جو ان کی عینک پرلگے ہوئے تقلیدی شیشے کا رنگ تھا، لیکن نظر حقیقت اور صاف شفاف عینک سے دیکھا جائے تو اس میں کارفرما علت اگر کوئی ہوسکتی ہے تو وہ ایک نہیں، چار علتیں ہیں: غیرت کا تحفظ، دوسری علت: انصاف کی عَلم برداری، تیسری علت : نسب اور خاندانی نظام کا تحفظ، چوتھی علت : اسلامی معاشرے سے کرائے کےسانڈوں ( زنا کاروں)کا خاتمہ۔ اس کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں: ۱۔ چند راتوں کے لئے طلاق کی شرط کرکے ایک خوبرونوجوان لڑکی کو کسی کےسپرد کردینا، غیرت کے خلاف ہے، کوئی غیرت مند مرد اس کو برداشت کرسکتا ہے نہ کوئی غیرت مند عورت، بالخصوص جب کہ وہ جوان بھی ہو او رحسن و جمال میں بھی یکتا۔ اس حکم لعنت میں کارفرما علت اس بے غیرتی کا سدّ باب ہے۔ جو دین حیا و عفت کی اعلیٰ تعلیمات کا حامل ہو، وہ حلالۂ ملعونہ جیسی بے غیرتی کو کب برداشت کرسکتا ہے؟ ۲۔ تیسری طلاق دینے کا مجرم مرد ہے نہ کہ عورت۔ عدل و انصاف کا تقاضا ہےکہ جرم کی سزا مجرم (مرد) کو ملے نہ کہ عورت کو، جو یکسر بے قصور ہے۔ لیکن حلالۂ ملعونہ میں سزا عورت
Flag Counter