Maktaba Wahhabi

79 - 95
استعمال کی اجازت نہیں،بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر حکم الٰہی کی حکمت و غایت تک ہرعقل کی رسائی ممکن نہیں، تو جس چیز کی حکمت انسان کی عقل میں نہ آئے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ خلافِ عقل ہے،بلکہ وہ اس کی عقل و فہم سے ماورا ہے۔ انسانی عقل محدود ہے، ضروری نہیں کہ ہر بات کی حقیقت تک اس کی رسائی ہوجائے۔ اسی لئےکہا جاتا ہے کہ احکام الٰہیہ میں عقل و قیاس کے استعمال کی اجازت نہیں ہے، حضرت علی کا مشہور مقولہ ہے: لَوْ كَانَ الدِّينُ بِالرَّأْىِ لَكَانَ أَسْفَلُ الْخُفِّ أَوْلَى بِالْمَسْحِ مِنْ أَعْلاَهُ[1] ''اگر دین میں عقل و رائے کا دخل ہوتا توموزوں پر مسح اوپر والے حصے کے بجائے نچلے حصہ پر کرنے کا حکم ہوتا۔'' دین کے بہت سے احکام ہیں جن کی حکمت و مصلحت آسانی سے سمجھ (عقل) میں آجاتی ہے،لیکن متعدد احکام ایسے بھی ہیں جن کی حکمت صرف اللہ ہی جانتا ہے، انسانی عقل کی رسائی وہاں تک ممکن نہیں۔ لیکن ہر دو کا ماننا مسلمان کے لئے ضروری ہے۔ یہی مسئلہ احکام شرعیہ کی علت کا ہے۔ ہر حکم کی علت بیان نہیں کی گئی ہے، اکثر احکام علت کے بغیر ہی بیان کیے گئے ہیں۔ ان کی علّت سمجھے بغیر اِن پرعمل کرنا ضروری ہے۔ البتہ بعض احکام ایسے ہیں کہ ان کی علت بیان کی گئی ہے یا ان کی علت آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے۔ جن کی علت بیان ہوئی ہے یا اُن کی علت آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے، اُن میں بھی ضروری نہیں کہ ارتفاعِ علت سے حکم کا ارتفاع ہوجائے۔ بعض احکام میں ارتفاعِ علت کے باوجود خود شریعت نے حکم باقی رکھا ہے، جیسے حج کے طواف میں 'رمل' کا حکم ہے۔ یہ حکم ایک خاص پس منظر کی وجہ سے دیا گیا تھا، لیکن اس علت کے مرتفع ہوجانے کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں رمل کرکے واضح کردیا کہ اس حکم کی علت اگرچہ ختم ہوگئی، لیکن چونکہ اس علت کا ایک تاریخی پس منظر تھا، اس لئے اس پس منظر کی یادگار کے طور پر علت کے خاتمے کے باوجود رمل کے حکم کو باقی رکھا گیا۔
Flag Counter