Maktaba Wahhabi

78 - 95
طرح عورت کے لیے ہر طرح کی آزادی کو اسلام کا حکم باور کرانا چاہتے ہیں۔ 'روح القرآن'کے فاضل مؤلف یا مؤلفین نے اپنے حلالۂ ملعونہ کے اثبات کے لیے اس علّت کے ہتھیار کو بھی استعمال کیاہے اور مذکورہ ضالّ اور مُضِلّ گروہوں کی طرح اپنی طرف سے ایک علت گھڑ کے اس لعنت والےکام سے لعنت والا عنصر ختم کرکے اس کو ملعون کےبجائے مأجور (باعثِ اجر) قرار دے دیا ہے،جیسا کہ ان کے فقہائے متقدمین و متأخرین کا موقف چلا آرہا ہے۔ اُنہوں نے اس کی کیاعلت بیان کی ہے؟ اور اس کی حقیقت کیا ہے؟ ان شاء اللہ اس پرگفتگو ہوگی۔ اس سے پہلے آپ علت کے مسئلے کی اصل حیثیت سمجھ لیں۔ احکامِ شرعیہ میں اصل چیز اطاعت ہے۔ جو بھی اللہ رسول کا حکم ہو، اس کی علت کیا ہے؟ اس بحث میں پڑے بغیر، اس کا ماننا، اس پربلا چون و چراعمل کرنا فرض ہے۔ اس لیے کہ مسلمان وحئ الٰہی کا پابند ہے، اس کی عقل میں آئے یا نہ آئے۔ ہر شخص کی عقل الگ الگ ہے، اگر عمل کرنے کے لیے عقل میں آنا ضروری ہوتاتو حکم الٰہی اور احکام شرعیہ بازیچۂ اطفال بن کر رہ جاتے، کوئی کہتا: یہ عمل معقول ہے۔ کوئی کہتا: میری عقل میں یہ بات نہیں آتی۔ کوئی کہتا: یہ حکم اس طرح ہوتا تو زیادہ صحیح ہوتا۔ اس لیے اسلام میں عقل کو یہ مقام نہیں دیاگیا ہے کہ وہ حکمِ الٰہی کو اپنی عقل کے پیمانے سے جانچے پرکھے، بلکہ اپنی عقل کو حکم الٰہی کا پابند بنا کر رکھے۔کیونکہ ہر حکم الٰہی کی حکمت، علت اور غایت تک ہر شخص کی عقل کی رسائی نہیں ہوسکتی۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو جب ابوجہل نے جاکربتلایا کہ تیراپیغمبر( صلی اللہ علیہ وسلم ) تو اب یہ کہہ رہا ہےکہ وہ راتوں رات بیت المقدس سے ہوکر واپس آگیا ہے، کیا تو اب بھی اس کی بات مانے گا؟ ابوجہل کو یقین تھاکہ ابوبکر اس کےماننے میں یقیناً تأمل کرے گا۔ لیکن ابوبکر صدیق نے فرمایا: اگر واقعی میرے پیغمبر نے یہ کہا ہے تو سچ کہا ہے، کیونکہ میرے پیغمبر پر وحی آتی ہے تو جب میں اپنے پیغمبر کی وحی پرمبنی تمام باتیں تسلیم کرتا ہوں تو پیغمبر کی زبان سے اقرار کردہ واقعۂ اِسرا کا انکار میں کس طرح کرسکتا ہوں؟ یہ ہے ایک مسلمان کا طرزِ عمل، وہ حکم الٰہی اور فرمانِ پیغمبر کے مقابلے میں اپنی عقل کو استعمال نہیں کرتا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ احکامِ الٰہیہ عقل کے خلاف ہیں،اس لیے عقل کے
Flag Counter