Maktaba Wahhabi

77 - 95
بحث ہی تمام ہوجاتی ہے۔ لیکن مفسر موصوف اس ساری کدو کاوش اور فکری جانکاہی کے باوجود اپنے ضمیر کو مطمئن کرنے میں ناکام ہی رہے اور دل و دماغ کو اس کشمکش سے پاک نہ کرسکے کہ جس کام پر اللہ کےرسول نے لعنت فرمائی ہے، اس لعنت کا تقاضا تو اس کام کی حرمت و ممانعت ہے، نہ کہ اس کی حلت ا وراس کا جواز؟ چنانچہ سب کچھ کرنے او رسارے پاپڑ بیلنے کے باوجود ضمیر کی خلش نے ان کے قلم سے بالآخر یہ الفاظ بھی لکھوا دیئے: ''اس کے باوجود حلالے کی تحسین کی گنجائش قطعاً نہیں ہے۔'' محترم ! کیوں نہیں؟ ... جب آپ کی فقہی نکتہ سنجیوں اور تقلیدی موشگافیوں سے وہ کام حرام ہی نہیں رہا، بلکہ حلال ہوگیا او رحلال ہی نہیں ہوگیا بلکہ اجر و ثواب کا باعث ہوگیا، تو اس کی تحسین کیوں نہیں کی جاسکتی؟ کیا اجر و ثواب والے کام کی بابت یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ قابل تحسین نہیں؟ اب دو ہی باتیں ہیں، یا تو حلالۂ ملعونہ کو حلال کرنے کی کوشش قابلِ تحسین نہیں۔ اور اگر یہ کوشش قابلِ تحسین ہے تو پھر یہ فرمان غلط ہے کہ حلالۂ ملعونہ کی تحسین کی قطعاً گنجائش نہیں۔ دونوں باتیں بیک وقت صحیح نہیں ہوسکتیں۔ احکام شرعیہ میں علّت کا مسئلہ احکام شرعیہ میں علّت کا مسئلہ اپنی جگہ ایک اہمیت کا حامل ضرور ہے، لیکن اس کی اصل حیثیت کیا ہے؟ اس سے اکثر لوگ بے خبر ہیں۔ علاوہ ازیں اس دور میں شریعت کے اصل احکام سے انحراف کرنے والے (منکرینِ حدیث، مغرب زدہ مستغربین اور مشککین) نے اس کو اپنی فکری گمراہی اور استشراقی فکر کے اثبات کا ذریعہ بنایا ہوا ہے اور شریعت کے جس مسئلے سے جان چھڑانی ہو، وہاں وہ یہی ذریعہ اختیار کرتے ہوئے اپنی طرف سے ایک علت گھڑ کے کہتے ہیں کہ اس کی اصل علت یہ تھی۔ اب چونکہ یہ علت باقی نہیں رہی،اس لیے یہ حکم بھی باقی نہیں رہا۔ اس طرح عورتوں کے بارےمیں اسلام نے عورت کی عصمت و تقدس کے تحفظ کے لیے جواحکام دیے ہیں (مثلاً پردہ، صرف گھریلو اُمور کی ذمہ داری وغیرہ) وہ ان سب کو ختم کرکے مغرب کی
Flag Counter