تاویل سے قرآن کو بنا سکتے ہیں پازند[1] صاحبِ تفسیر مزید فرماتے ہیں: ''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلالہ کرنےوالے او رکرانے والے پر لعنت فرمائی ہے۔ حدیث کے الفاظ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو لعنت فرمائی ہے،وہ طلاق کی شرط کی وجہ سے ہے۔اگربلا شرط کے یہ کام ہو تو لعنت بھی نہیں ہے۔ شرط کے ساتھ ہو تو بھی قانونی ضرورت پوری ہوجاتی ہے،مگر گناہ کےساتھ اور بغیر شرط کے ہو تو لعنت و گناہ کا کوئی عنصر(Element) پیدا ہی نہیں ہوتا۔ اس کے باوجود حلالے کی تحسین کی گنجائش قطعاً نہیں ہے۔''[2] اس عبارت میں صاحب تفسیر کی ژولیدہ خیالی، پریشاں فکری اور حرام کو حلال ثابت کرنے کی سعئ مذموم میں ضمیر کی کشمکش کو آسانی سے ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ذرا ملاحظہ فرمائیے ! پہلے موصوف نے فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی از خود ایک علّت (وجہ) وضع کی۔ دوسرے نمبر پر فرمایا: وہ علت (شرطِ طلاق) نہ ہو تو لعنت بھی نہیں۔ تیسرے نمبر پر فرمایا: شرط کے ساتھ ہو تو بھی قانونی ضرورت پوری ہوجاتی ہے مگر گناہ کے ساتھ چوتھے نمبر پر فرمایا: اس کے باوجود حلالے کی تحسین کی قطعاً گنجائش نہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب آپ نے پورے شرحِ صدر کے ساتھ حدیثِ رسول کی ایک علّت خود ہی گھڑ کر یہ فیصلہ کردیا کہ بہ نیت تحلیل نکاح میں یہ علت (شرط طلاق) چونکہ نہیں ہوتی اس لئے سرے سے یہ لعنت والا کام ہی نہیں ہے اورمزید رعایت دیتے ہوئے فرما دیا کہ شرط طلاق کےساتھ بھی نکاح ہو تو قانونی ضرورت تو پوری ہو ہی جاتی ہے، گو گناہ کے ساتھ ہی سہی۔ اس طرح حدیثِ رسول کی ساری اہمیت کوختم اور اس کے اصل مقصد و غایت کو غت ربود کرکے حلالۂ ملعونہ کا مکمل طور پر جواز فراہم کردیا۔ اس کے بعد تو سارا مسئلہ ہی ختم اور ساری |