Maktaba Wahhabi

75 - 95
عورت کو طلاق دے دے گا۔ حلالے کا شرعی اُصولوں کے تحت جائزہ لیا جائے تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ طلاق کی شرط پر نکاح کرنے سے نکاح تو ہوجاتا ہے اگرچہ ایسی شرط لگانا صحیح نہیں ہے۔ پہلے شوہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کے لئے شریعت نےدوسرے نکاح کی جو شرط لازمی قرار دی ہے وہ پوری ہوجاتی ہے، لہٰذا عدت کی تکمیل کے بعد باہمی رضا مندی سے پہلے شوہر سے نکاح میں کوئی شرعی رکاوٹ نہیں رہتی۔'' ہم فاضل مفسر یا مفسرین سے پوچھتے ہیں کہ پہلے حلالۂ شرعیہ کی جو تعریف آپ نے کی ہے، اگر وہ صحیح ہے اور یقیناً وہ صحیح ہے سوائے ایک لفظ عارضی کے۔ اورحلالے کا شرعی اصولوں کے تحت جائزہ لینے سے آپ نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ حلالۂ غیر شرعیہ یا حلالۂ ملعونہ سے بھی نکاح ہوجاتا ہے تو پھر حلالۂ شرعیہ اور حلالۂ غیر شرعیہ میں کوئی فرق تو نہ رہا اور وہ کون سے شرعی اُصول ہیں کہ ان سے حرام بھی حلال ہوجاتا ہے ؟ او رکیا حرام طریقے سےایک دوسرے جائز کام کے شرعی اور قانونی تقاضے پورے ہوجاتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو پھر حلالۂ مروّجہ کو لعنتی فعل کیوں قرار دیا گیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس لعنت والے فرمان کا تقاضا تو یہ ہے کہ ایسا نکاح منعقد ہی نہ ہو۔اگر اس لعنتی طریقے سے بھی نکاح صحیح ہوجاتا ہے تو پھر اس کو لعنت والا کام ہی کیوں قرار دیا گیا ہے؟ اس کا مطلب تو پھر یہ ہوگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (نعوذ باللّٰہ) ایک نہایت آسان طریقے پرخوامخواہ بند باندھ دیاہے گو اُمتی کہلانے والوں نے بہ لطائف الِحیَل اس بند کو فقہی موشگافیوں کے ذریعے سے توڑ دیا ہے۔ اُمّت کے خیر خواہ تو یہ حیلہ ساز فقہا او ران کے پیروکار اصحابِ جبہ و دستار مفتیانِ کرام اور شیوخ الحدیث ہوئے نہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اس بے غیرتی والے کام پر اس کو لعنتی قرار دے کر، بند باندھا۔لیکن کہنے والوں نےکہا: چند راتوں کی بے غیرتی سے بھی شرعی اور قانونی ضرورت پوری ہوجاتی ہے۔آہ! علامہ اقبال رحمہ اللہ نے سچ کہا تھا اَحکام ترے حق ہیں مگر اپنےمفسّر
Flag Counter