ایک اور حنفی مفسر کی باطل تاویلیں اور اُن کی حقیقت (۵) اور زمانۂ حال کے ایک اور دیو بندی مفسر قرآن جن کی مفصل تفسیر'روح القرآن' کے نام سے مدیر جامعۃ البنوریہ العالمیہ( کراچی) کے زیر نگرانی چھپ رہی ہے، یہ صاحب اپنی تفسیر میں زیربحث آیت کی وضاحت میں بعنوان 'حلالۂ شرعیہ کی وضاحت' لکھتے ہیں: ''حلالہ کے معنی ہیں طلاق والی عورت کا (عارضی) نکاح کرنا تاکہ دوسرے شخص سے نکاح کے بعد وہ عورت اپنے پہلے شوہر سے دوبارہ نکاح کرسکے۔ قرآنِ مجید کی صراحت و وضاحت کے بعد تین طلاق والی مطلقہ عورت کے اپنے سابقہ شوہر سے دوبارہ نکاح کی ایک ہی صورت باقی رہ جاتی ہے کہ عدت کے بعد اس عورت کا کسی دوسرے شخص سے نکاح ہو اورگھر بسانے کے بعد دوسرے شوہر کا انتقال ہو جائے یا دوسرا شوہر طلاق دے دے اور عدت کے بعد اگر سابقہ شوہر او ریہ عورت دوبارہ نکاح کرنے پر رضا مند ہوں تو دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں۔'' حلالۂ شرعیہ کی وضاحت موصوف نے صحیح کی ہے۔لیکن بریکٹ میں 'عارضی' کا اضافہ یہاں کس طرح صحیح ہوسکتا ہے؟ حلالۂ شرعیہ میں تو نکاح عارضی ہوتا ہی نہیں ہے، اس میں تو نکاح دوسرے شوہر سے بھی مستقل طور پر آباد رہنے ہی کی نیت سے ہوتا ہے۔ اگر یہ نیتِ دوام نہیں ہوگی تو وہ حلالۂ شرعیہ ہی نہیں ہوگا، وہ تو حلالۂ مروّجہ ملعونہ ہی ہوجائے گا۔ لیکن چونکہ تقلید کا حسین طوق اِن کے بھی زیبِ گلو ہے، اس لئے ذہن میں یہی سوچ کارفرما ہے کہ بالآخر حلالۂ مروّجہ کا بھی جواز پیش کرنا ہے، اس لئے موصوف نے حلالۂ شرعیہ کی تعریف میں بھی 'عارضی'کے لفظ کو بریکٹ میں لکھ دیا ہے تاکہ اگلے پیرے میں، جس میں حلالہ غیر شرعیہ کو ثابت کرنا ہے، کچھ سہارا مل جائے کیونکہ اصل مقصد تو اسی کا اثبات ہے، باقی وضاحتیں تو مجبوری ہے۔ بہرحال اگلے پیرے میں اصل مقصود سامنے آجاتا ہے اور فرماتے ہیں: ''اس شرعی اور قانونی ضرورت کو پورا کرنے کی ایک شکل یہ ہےکہ مطلقہ عورت کا دوسرے شخص سے اس شرط پر عارضی نکاح ہو کہ وہ شخص ہم بستری کے بعد اس |