یہ وہی باتیں ہیں جن کا بے حقیقت اورخلاف منشاے شریعت ہونا ہم واضح کرآئے ہیں لیکن تقلید کی عینک کی وجہ سے ان کو نظر نہیں آرہی ہیں۔ بھلا ایک لعنتی او رحرام کام بھی اچھی سی نیت کرلینےسے حلال بلکہ باعثِ اجرہوسکتا ہے؟ نہیں، ہرگز نہیں۔ کوئی بھی لعنت والا کام نہ حلال ہوسکتا ہے اور نہ باعثِ اجر اور نہ اس کی کوئی قانونی و شرعی حیثیت ہے کہ اس سے شرعی مقاصد حاصل ہوسکیں، جیسا کہ اس لعنتی کام سے زوجِ اوّل کے لئے دوبارہ نکاح کا جواز ثابت کیا جارہا ہے۔ زوجِ اوّل کے لئے دوبارہ نکاح کے جواز کا صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ صرف اور صرف وہ حلالۂ شرعیہ ہے جس کی وضاحت قرآن و حدیث میں ملتی ہے۔ اس کے برعکس حلالۂ مروّجہ(فقہ حنفی والا) یہ زنا کاری ہے۔کرائے کے سانڈ کے پاس بھی وہ عورت جتنے دن رہے گی، دونوں عنداللّٰہ زنا کار رہیں گے، پھر زوجِ اوّل کے ساتھ اس عورت کے دوبارہ تعلق کی صحیح شرعی بنیاد چونکہ نہیں ہے، اس لئے یہ دونوں بھی عمر بھر زنا کار ہی رہیں گے۔أعاذ نا الله منها (۳) فتاویٰ دارالعلوم دیوبند میں ایک سوال کے جواب میں حلالے کا شرعی طریقہ بتلایا گیا ہے اور شوہر ثانی سے شرطِ طلاق کو مکروہ تحریمی لکھا گیا ہے۔ لیکن پھر مفتی صاحب کی رگِ حنفیت پھڑکی اور دُرّ مختار (فقہ حنفی کی معتبر کتاب) کے حوالے سے یہ عربی عبارت نقل کردی جس کا مطلب وہی ہے کہ اگر دل میں دونوں کی نیت (عارضی نکاح کرکے چھوڑ دینے کی) ہے تو پھر یہ نکاح مکروہ نہیں ہے،بلکہ آدمی قصدِ اصلاح کی وجہ سے ماجور ہوگا۔[1] (۴) مولانا رشیداحمد گنگوہی اس سوال کے جواب میں کہ اگر ایک ماہ بعد طلاق دینے کی شرط پرنکاح ہوا تو یہ نکاح صحیح ہے یا نہیں؟ فرماتے ہیں: ''نکاح بشرطِ طلاق بعد ایک ماہ تو بحکم متعہ کے حرام ہے،اگر زبان سے یہ شرط کی جاوے اور جو دل میں ارادہ ہے، عقد میں ذکر نہیں ہوا تو نکاح صحیح ہے۔''[2] |