Maktaba Wahhabi

72 - 95
و حدیث کی تاویل اور دور از کار توجیہ کرکے حنفی فقہ کے بے سروپا مسائل کو صحیح باور کرا رہا ہے۔ جیسا کہ مولانا تقی عثمانی صاحب کے درسی افادات (درسِ ترمذی) بھی اسی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ مُلاحظہ فرمائیے ! (۲) مولانا احمد علی سہارنپوری اسی حدیثِ محلل کے بارے میں فرماتے ہیں: ''پہلا لفظ محلِّل (اسم فاعل، حلالہ کرنے والا ) وہ شخص ہے جس کے ساتھ کسی عورت نے تحلیل کی غرض سے شادی کی۔ دوسرا لفظ مفعول (محلَّل له) وہ پہلا شوہر ہے جس کی خاطر تحلیل واقع ہورہی ہے۔پہلا شخص (محلل، حلالہ کرنے والا) اس لئے ملعون ہے کہ اس نے جدائی (طلاق) کے ارادے سےنکاح کیا،حالانکہ نکاح تو (بیوی کو ) ہمیشہ رکھنے کے لئے مشروع کیا گیا ہے۔ پس اس کی حیثیت کرائے کے سانڈ کی مثل ہوگئی،جیسا کہ دوسری حدیث میں آیا ہے اور دوسرا اس لئے ملعون ہے کہ وہ اس قسم کے نکاح کا سبب بنا ہے اور مراد (اس لعنت سے) ان دونوں افراد کی کمینگی (خساست) کا اظہار ہے، اس لئے کہ طبعِ سلیم ان دونوں کے فعلوں (بے غیرتی والے کاموں) سے نفرت کرتی ہے۔ لعنت کی حقیقت مراد نہیں ہے۔'' غور فرمائیے! کہ حدیث کے الفاط کی تشریح بھی خوب ہے اور دونوں کے فعل کو کمینگی اور طبعِ سلیم کے خلاف بھی تسلیم کررہے ہیں۔ لیکن پھر حنفیت کا رنگ غالب آجاتا ہے اور کہتے ہیں کہ لعنت کی حقیقت مراد نہیں ہے۔پتہ نہیں، لعنت کی حقیقت علماے احناف کے نزدیک کیا ہے؟ آگے فرماتے ہیں: "وقيل المكروه اشتراط الزوج بالتحليل في القول لا في النية، بل قد قيل إنه ماجور بالنية لقصد الإصلاح"[1] ''او رکہا گیا ہے کہ زبان سے شادی کے وقت حلالے کی شرط کرنا مکروہ ہے، لیکن دل میں نیت ہو تو مکروہ نہیں۔ بلکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ نیت کرکے حلالہ کرنے والا ماجور ہے، اس لیے کہ اس کا مقصد اصلاح ہے۔''
Flag Counter