Maktaba Wahhabi

71 - 95
تک اس کو کوئی متزلزل نہیں کرسکتا۔'' مولانا کشمیری مرحوم کے ترمذی کے درسی افادات 'العرف الشذی' کے نام سے چھپے ہوئے ہیں۔ اس میں علامہ کشمیری نے بھی حنفیہ کے زیر بحث حلالہ کے جواز میں اسی ابن سیرین کی روایت سے استدلال کیا ہے،[1] حالانکہ یہ سخت منقطع روایت ہے۔ مسئلۂ زیر بحث میں علامہ کشمیری نے بھی حدیث لعن اللّٰه المحل... الحدیث میں وارد لعنت کو شرطِ تحلیل کے ساتھ خاص کرکے حلالۂ ملعونہ کوبہ نیتِ تحلیل نہ صرف جائز بلکہ باعثِ اجر ہی قرار دیا ہے۔ دوسرے، صحیح حدیث و آثار صحابہ کے مقابلے میں ایک منقطع اثر سے استدلال کیا ہے۔ ایسے شخص سے کیا یہ اُمید کی جاسکتی ہے کہ وہ نصوصِ قرآن و حدیث کے ساتھ حق و انصاف کا معاملہ کرے گا؟ بالخصوص جب کہ وہ خود بھی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تقلیدِ محض پر فخر کرتا ہو۔ علامہ کشمیری کے صاحبزادے اُن کا مقولہ نقل فرماتے ہیں: ''میں کسی فن میں کسی کا مقلد نہیں ہوں خود اپنی رائے رکھتا ہوں... بجز فقہ کے (اس میں) ابوحنیفہ کی تقلیدِ محض کرتا ہوں۔''[2] ان کے اس رویے اور اس مثال سے اوّل الذکر دو دعووں کی بابت آسانی سے فیصلہ کیا جاسکتا ہے کہ ان میں کچھ حقیقت بھی ہے یا محض غلوِ عقیدت کا مظاہرہ اور بے جا مبالغہ آرائی۔ البتہ تیسرا دعویٰ سو فیصد حقیقت پر مبنی ہے کہ ان کے تدریس حدیث کا انداز اور مقصد حنفی فقہ کا اثبات تھا اور اُس کے لئے یہ ضروری تھا کہ صحیح احادیث کو کسی نہ کسی طرح مجروح ومطعون اور ضعاف و مراسیل اور منقطع روایات کو قابل حجت ثابت کیا جائے۔ چنانچہ یہی کچھ اُنہوں نے بھی کیا، ان سے پہلے مولانا احمد علی سہارنپوری(محشی صحیح بخاری) مولانا محمود الحسن دیوبندی اور مولانا رشید احمد گنگوہی وغیرہ نے بھی یہی کیا او ران کے بعد ہر حنفی مدرسے کا شیخ الحدیث مسندِ درس پربیٹھ کر تدریس حدیث کے نام پر حنفیت ہی کی خدمت، یعنی نصوصِ قرآن
Flag Counter