عمر سے، جو حرمتِ نکاح میں صریح ہے، جوازِ نکاح کا اثبات فرما رہے ہیں؟...﴿إِنَّ هٰذا لَشَىءٌ عُجابٌ﴾ ۷۔ ساتویں اورآخری دلیل : مولانا تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں: ''نکاح بشرط التحلیل ناجائز ہونے کے باوجود منعقد ہوجاتا ہے، اس پر حنفیہ کی دلیل مصنف عبدالرزاق میں حضرت عمر کا ایک فتویٰ ہے: عَنِ ابْنِ سِيرِينَ قَالَ: أَرْسَلَتِ امْرَأَةٌ إِلَى رَجُلٍ فَزَوَّجَتْهُ نَفْسَهَا لِيُحِلَّهَا لِزَوْجِهَا، فَأَمَرَهُ عُمَرُ: ((أَنْ يُقِيمَ عَلَيْهَا وَلَا يُطَلِّقَهَا، وَأَوْعَدَهُ بِعَاقِبَةٍ إِنْ طَلَّقَهَا))معلوم ہوا کہ اُنہوں نے اس نکاح کو منعقد شمار کیا۔ والله اعلم''[1] تبصرہ: اس روایت کا ترجمہ بھی مولانا موصوف نے پیش نہیں کیا۔ پہلے اس کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں۔ ''ابن سیرینؒ نے بیان کیا کہ ایک عورت نے ایک مرد سے اس شرط کے ساتھ نکاح کیا کہ وہ اسے پہلے شوہر کے لئے حلال کردے (چنانچہ اس نے اس سے نکاح کرلیا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو معلو م ہوا تو) حضرت عمر نے اس مرد کو حکم دیا کہ وہ اس عورت کواپنے پاس ہی رکھے اور اسے طلاق نہ دے بلکہ کہا: اگر اس نے طلاق دی تو مستوجبِ سزا ہوگا۔'' اس سے بقول مولانا عثمانی صاحب معلوم ہوا کہ حضرت عمر کے نزدیک نکاحِ حلالہ سے نکاح منعقد ہوجاتا ہے۔ حالانکہ ابن سیرین تابعی، جو حضرت عمر کے دور کا یہ واقعہ بیان کررہے ہیں، حضرت عثمان کی خلافت کے بالکل آخری دور میں پیدا ہوئے، وہ حضرت عمر کے دورِ خلافت میں ۵، ۶ سال کے بچے ہوں گے۔ وہ حضرت عمر کا یہ فیصلہ بیان کررہے ہیں؟ اس اعتبار سے یہ روایت سخت منقطع ہے۔ اس کے برعکس حضرت عمر کا یہ فیصلہ صحیح سند سے ہم بیان کر آئے ہیں جس میں اُنہوں نے فرمایا کہ جوبھی حلالہ کرنے والا مرد اور وہ عورت جس سے حلالہ کیا گیا ہو، میرے پاس لائے جائیں گے تو میں اُن دونوں کو رجم کی سزا دوں گا۔ اب اہل انصاف، جن کے دل میں ذرا بھی اللہ کا خوف ہے، فیصلہ کرلیں کہ ایک بے سروپا |