Maktaba Wahhabi

68 - 95
رہے ہیں کہ اس سےعدمِ انعقاد ثابت نہیں ہوتا، گویا بہ الفاظ دیگر جوازِ نکاح ثابت ہوتا ہے۔ ہم ان سےمطالبہ کرتے ہیں کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے کن الفاظ سے اُنہوں نے یہ مطلب اخذ کرکے اپنی حنفی فقہ اُن کے سرمنڈھ دی ہے، اس کی وہ وضاحت فرمائیں۔ اپنی بات کو مؤکد کرنے کے لئے آگے اُنہوں نے فرمایا ہے: ''جس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اس معاملے میں زوجین کو تفریق کا کوئی حکم نہیں دیا۔'' لیکن ہمارا یہاں بھی یہی سوال ہے کہ مذکورہ روایت کے کن الفاظ سے آپ نے یہ تأثر لے کراس سے اپنے موقف کی تائید کشید کی ہے۔ روایت میں تو سرے سے اس قسم کے قطعاً کوئی الفاظ ہی نہیں ہیں کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے تفریق کا کوئی حکم نہیں دیا۔ اس میں تفریق یا عدم تفریق کا کوئی ذکر ہی نہیں ہے، اس سے عدم تفریق کا تأثر لینا کس طرح درست ہوسکتا ہے؟ اس کو ایک مثال سے اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ ایک سائل ایک مفتی صاحب سے پوچھتا ہے: میں نے فلاں طریقے سے ایک عورت سے نکاح کیا ہے، کیا یہ نکاح صحیح ہے؟ مفتی صاحب فرماتے ہیں: یہ تو زنا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اس کو زنا سمجھا جاتا تھا۔ فرمائیے ! کیا اس جواب سے یہ مطلب اخذ کیا جاسکتا ہے کہ زنا کے ساتھ اس طریق نکاح کی تشبیہ صرف حرمت میں ہے، عدم انعقاد میں نہیں۔ یعنی مفتی صاحب کے قول سے اس کا زنا ہونا تو واضح ہے،لیکن اس سے نکاح کا انعقاد ثابت ہوجاتا ہے۔ جب کہ مفتی صاحب نے نکاح کے منعقد ہونے یا نہ ہونے کا کوئی ذکر ہی نہیں کیا، اسے صرف زنا قرار دیا۔ کیا زنا قرار دینے کے باوجود اس سے انعقادِ نکاح کا اثبات کیا جاسکتا ہے؟ یا یہ فتویٰ زنا عدم انعقاد نکاح کے بارے میں بالکل واضح ہے، کیونکہ زنا قرار دینے کے بعد مزید کسی بات کی صراحت کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔ لیکن سائل اعلان کرنا شروع کردے کہ مفتی صاحب نے نکاح کو جائز قرار دے دیا ہے۔ کیا سائل کا ایسا سمجھنا صحیح ہے؟ یقیناً صحیح نہیں ہے۔ آپ حضرت عبداللّٰہ بن عمر رضی اللہ عنہما والی روایت دوبارہ پڑھ لیں، اس میں صرف یہ ہے کہ نکاحِ حلالہ زنا ہے، اس سے نکاح کا جواز کس طرح ثابت ہوجائے گا؟ آپ افتاء و درسِ حدیث کی نہایت اونچی مسند پر بیٹھ کر زنا کاری کے فتویٰ ابن
Flag Counter