رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں زنا کاری سمجھتے تھے اور موصوف اس کا مطلب یہ بیان فرما رہے ہیں کہ زنا کے ساتھ نکاحِ حلالہ کی تشبیہ صرف حرمت میں ہے، عدمِ انعقاد میں نہیں۔إنا للّٰه وإنا إليه راجعون! گویا حضرت عبداللّٰہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا مطلب یہ تھا کہ نکاح حلالہ والا عمل ہے تو یقیناً زنا لیکن نکاح منعقد ہوگیا۔ لیکن نکاح منعقد ہوگیا، والا مطلب حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے کن الفاظ سے نکلتا ہے؟ ہماری فہم سے تو بالا ہے۔ روایت میں تو ایسے کوئی الفاظ نہیں ہیں۔ ہم تو یہی سمجھتے ہیں کہ جب حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ اس کو زنا کاری فرما رہے ہیں تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ایسا نکاح حرام ہے، وہ نکاح ہے ہی نہیں۔ اگر ان کے نزدیک یہ نکاح صحیح ہوتا تو پھر وہ اسے زنا کاری کیوں کہتے؟ اگر اس کا مطلب وہ لیا جائے جو مولانا عثمانی صاحب بیان فرما رہے ہیں کہ یہ تشبیہ صرف حرمت میں ہے، عدمِ انعقاد میں نہیں (اگرچہ یہ مطلب ان کے کسی لفظ سے نہیں نکلتا)تاہم اگر اس مطلب کو صحیح مان لیا جائے تو اس کے صاف معنیٰ یہ ہوں گے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک نعوذ باللّٰہ زنا کاری بھی نکاح کے جواز کا ایک ذریعہ ہے۔ کیا واقعی ایسا ہے اور زنا سے بھی انعقادِ نکاح صحیح ہے؟ اگر واقعی زنا سے بھی نکاح منعقد ہوجاتا ہے تو پھر باقاعدہ نکاح کرنے کی او راس کے انتظام میں لاکھوں روپے خرچ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ پھر تو کسی عورت کو قابو کرکے اس سے زنا کرلو اور سمجھ لو نکاح ہوگیا او رپھر ساری عمر اس سے زنا کاری کرتے رہو۔ اگر حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے قول کی یہ حنفی توجیہ صحیح ہے تو پھر عملِ زنا بھی نکاح کا ایک ذریعہ ہے؟ سبحان اللہ !کیا یہی وہ فقاہت ہے جس کی نبی کریم نے اپنی اُمت کوتلقین فرمائی ہے؟ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث کی اہمیت او راس کی بے بنیاد تاویل حضرت عبداللّٰہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث، جو پہلے پوری بیان ہوچکی ہے، نہایت اہم ہے۔ اس میں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے اپنے سمیت تمام صحابہ کا یہ موقف بیان فرما رہے ہیں کہ ہم نکاحِ حلالہ کو زنا کاری سمجھتے تھے۔ ہمارے نزدیک اس سے نکاحِ حلالہ کا حرام ہونا ثابت ہوتا ہے نہ کہ انعقادِ نکاح کا۔ لیکن اس کے برعکس مولانا تقی عثمانی صاحب مسندِ حدیث پر بیٹھ کر فرما |