اسی طرح ہمارے پاک و ہند میں ایک فراہی گروپ ہے جس کو پاکستان میں غامدی گروپ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ گروپ بھی اپنے نظریات کے خلاف احادیث کو نہیں مانتا۔ اس لئے یہ گروپ بھی اس حدیث کو نہیں مانتا جس میں دوسرے خاوند کے لئے ہم بستری کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ یہ گروہ 'تنکح'کے عموم سے استدلال کرتے ہوئے صرف عقدِ نکاح کے بعد ہی (ہم بستری کے بغیر) طلاق دے دینے کے بعد زوجِ اوّل سے نکاح کو جائز قرار دیتا ہے،عموم کی مذکورہ منطق کی رُو سے انکارِ حدیث پر مبنی یہ گمراہانہ نظریہ بھی پھر صحیح ہونا چاہیے۔ چہارم:مآخذِ شرعیہ میں قرآنِ کریم کے بعد سب سے بڑا اور دوسرا ماخذ حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور احادیث کا بیشتر حصہ بلکہ ۹۸ فیصد حصہ احادیثِ آحاد پر مشتمل ہے۔ اگر احادیثِ آحاد کی صحت و حجیت ... نعوذ بالله... مشکوک ہے تو دین کی بنیاد ہی منہدم ہوجاتی ہے۔ اسی لئے فقیہ الامت، امیر المؤمنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں 'کتاب اخبار الآحاد' میں اس مسئلے، یعنی حجیتِ خبر واحد کو نہایت مدلل طریقے سے بیان کرکے اس کی خصوصی اہمیت کو اُجاگر اور ثابت کیا ہے اور بتلایا ہے کہ حدیث صحیح مطلقاً حجت ہے اوراس سے قرآن کے عموم کی تخصیص بھی بالکل صحیح ہے۔ ۶۔ مولانا تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں: ''اس کے علاوہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے قول میں زنا کے ساتھ اس عمل کی تشبیہ صرف حرمت میں ہے،عدمِ انعقاد میں نہیں جس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اس معاملے میں زوجین کو تفریق کا کوئی حکم نہیں دیا۔''[1] تبصرہ: اس کو کہتے ہیں: توجيه القول بما لا يرضٰي به القائل، یعنی ''کہنے والے کی بات کی اس طرح توجیہ کرنا کہ کہنے والا اس کو پسند نہ کرے۔'' کیونکہ وہ توجیہ یا تاویل اس کے مقصد اور منشا کے خلاف ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے قول کی توجیہ ِعثمانی بھی حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے مقصد و منشا کے یکسر خلاف ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ اپنے قول میں نکاحِ حلالہ کی بابت فرما رہے ہیں کہ ہم اسے |