رفیق اعلیٰ کی طرف جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رسالت کی تبلیغ فرمالی اور اُمّت میں خیر کا کام جاری وساری ہوگیا تو آپ کے اَقوال و افعال میں اس کے اثرات محسوس ہونے لگے کہ آپ کا وقت پورا ہو چکا اور مشن مکمل ہو چکا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دسویں سال رمضان میں بیس دن کا اعتکاف کیا اور جبریل نے دو دفعہ آپ کو قرآن کا دور کروایا۔[1]آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہاسے فرمایا : میں سمجھتا ہوں، میرا وقت قریب آچکا ہے۔[2] حضرت معاذ کو یمن رخصت کیا تو اُنہیں وصیت کرنے کے بعد فرمایا: اے معاذ! غالباً اس سال کے بعد تم مجھ سے ملاقات نہ کرسکو گے اور میری اس مسجد اور میری قبر کے پاس سے گزرو گے، یہ سنکر حضر ت معاذ رونے لگے۔[3]آپ نے حجۃ الوداع میں کئی مرتبہ فرمایا : غالباً میں تم لوگو سے اس سال کے بعد نہ مل سکوں گا۔[4] ماہ صفر کے آخری سوموار، بیماری کا آغاز سردرد سے ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب بیویوں کے پاس وقت گزارتے رہے، جب مرض زیادہ ہوگیا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس منتقل ہوگئے ۔[5] آپ صلی اللہ علیہ وسلم مرض کی شدت کے باوجود نماز خود پڑھایا کرتے تھے لیکن جمعرات کی شام آپ بیماری کی وجہ سے نماز نہ پڑھا سکے تو آپ نے حضرت ابوبکر کو کہلا بھیجا کہ نماز پڑھائیں چنانچہ بقیہ ایام سیدنا ابوبکر نے نماز پڑھائی۔[6]آپ کی حیاتِ مبارکہ میں حضرت ابوبکر کی پڑھائی ہوئی نمازوں کی تعداد سترہ ہے۔ سوموار کی صبح سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز پڑھا رہے تھے کہ آپ نے حجرے کا پردہ اُٹھایا اور لوگوں کی طرف دیکھ کر مسکرائے۔ اس پر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ایڑیوں کے بل پیچھے ہٹے اور سمجھا کہ آپ نماز کے لیے تشریف لا رہے ہیں لیکن آپ نے ہاتھ سے اشارہ فرمایا کہ نماز پوری |