کرو اور پردہ گرا کر حجرے میں تشریف لے گئے۔[1]اب تکلیف لمحہ بہ لمحہ بڑھتی جا رہی تھی اور اس زہر کا اثر ہونا بھی شروع ہوگیا جو آپ کو خیبر میں کھلایا گیا تھا، آپ اسکی شدت محسوس کرنے لگے۔[2]آپ نے اپنے چہرے پر ایک چادر ڈال رکھی تھی، جب سانس پھولنے لگتا تو چہرے سے چادر ہٹا دیتے۔ اسی حالت میں فرمایا :'' یہود اور نصاریٰ پر اللہ کی لعنت اُنہوں نے اپنے انبیا کی قبروں کو مسجد بنالیا۔''[3] اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد امت کو ایسے کاموں سے روکنا تھا۔ اس کے بعد کئی بار فرمایا : ((الصلوٰة، الصلوٰة، وماملکت أیمانکم)) [4]نماز، نماز اور تمہارے غلام۔یعنی حقوق اللہ میں سب سے اہم نماز ہے اور حقوق العباد میں سب سے اہم کمزور لوگوں کا حق ہے۔ اور پھر نزع کی کیفیت شروع ہوگئی۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو اپنے گلے اور سینے کے درمیان سہارا دیکر لٹا لیا، اسی دوران ان کے بھائی عبد الرحمٰن آئے، ان کے پاس تازہ کھجور کی تازہ شاخ کی مسواک تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کی طرف دیکھنے لگے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سمجھ گئیں کہ آپ مسواک کرنا چاہتے ہیں۔ اُنہوں نے مسواک چبا کر نرم کی پھر آپ نے اچھی طرح مسواک کی۔[5] آپ کے پاس کٹورے میں پانی تھا،آپ اس میں ہاتھ ڈال کر چہرے پر پھیر تے اور فرماتے ((لا إله الا اللّٰه ، إنّ للموتِ سکرات)) [6] ''اللّٰہ کے سوا کوئی معبود نہیں اورموت کی سختیاں ہیں۔'' یعنی موت کی تکلیف ہوتی ہے۔ پھر آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنگلی بلند کی، ہونٹوں کو حرکت ہوئی، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کان لگایا تو فرما رہے تھے: ''ان انبیا، صدیقین، شہدا اورصالحین کے ساتھ جنہیں تو نے انعام سے نوازا۔ اے اللّٰہ! مجھے بخش دے، مجھ پر رحم فرما اور مجھے رفیق اعلیٰ میں پہنچادے،اے اللہ رفیق اعلیٰ[7]۔ آخری فقرہ تین بار دہرایا اور روح پرواز کر |