Maktaba Wahhabi

56 - 95
اور اذان مکمل نہ کرسکے۔[1] ٭ سیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابو طالب سے پوچھا گیا: آپ کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کیسی تھی؟ سیدنا علی نے فرمایا : كان واللّٰه أحب إلينا من أموالنا وأولادنا وآبائنا، وأمهاتنا ومن الماء البارد على الظمإ ''واللّٰہ ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اپنے مالوں، اولادوں، باپوں، ماؤں اور شدید پیاس کے وقت ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ محبوب تھے۔''[2] ۱۰۔ سیدنا سفیان رضی اللہ عنہ نے ایک بار کہا کہ میں نے کسی کو دوسروں سے ایسی محبت کرتے نہیں دیکھا جیسی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی اور جاں نثار ان سے کرتے ہیں۔[3] ۱۱۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور آپ کی رفاقت کی خواہش اس قدر زیادہ تھی کہ اپنی وفات سے قبل اپنے بیٹے سیدنا عبداللّٰہ سے کہا : اُمّ المؤمنین سیدنا عائشہ کے پاس جاؤ اور ان کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کرنا کہ عمر سلام عرض کرتا ہے اور ہاں دیکھو،امیر المؤمنین کا لفظ استعمال نہ کرنا۔ سلام عرض کرنے کے بعد درخواست کرنا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ دفن ہونے کی اجازت مانگتا ہے۔ سیدنا عبداللّٰہ رضی اللہ عنہ نے حاضر ہوکر سلام عرض کیا اور اندر آنے کی اجازت چاہی دیکھا کہ سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہا (امیر المومنین کی بیماری کے غم میں ) بیٹھی رو رہی ہیں۔ سیدنا عبداللّٰہ نے عرض کی: عمر بن خطاب سلام عرض کرتے ہیں اور اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ دفن ہونے کی اجازت مانگتے ہیں۔ سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا :وہ جگہ تو میں نے اپنے لیے رکھی تھی،لیکن اب میں اپنی بجائے عمر کو ترجیح دیتی ہوں۔ سیدنا عبداللّٰہ واپس ہوئے تو لوگوں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بتایا کہ عبداللّٰہ آگئے ہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے کہا: مجھے اُٹھا کر بٹھا ؤ۔ ایک آدمی نے سیدنا عمر کو سہارا دیا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: عبداللّٰہ! کیا خبر لائے ہو؟ سیدنا عبداللّٰہ نے کہا: امیر المؤمنین جو آپ چاہتے تھے سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو اجازت دے دی ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے الحمد للہ کہا،میرے لیے اس سے اہم اور کوئی بات نہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات کے بعد بھی سیده عائشہ سے تدفین کی تصدیق
Flag Counter