رسول اللہ سے میرا سلام کہنا اور میری قوم سے کہنا: ''یاد رکھو! اگر تم میں سے ایک آدمی بھی زندہ رہا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہید کر دیے گئے تو اللہ تعالیٰ کے ہاں تمہارا کوئی عذر قبول نہیں ہوگا۔''[1] ۸۔ ابن اسحٰق کہتے ہیں : غزوہ اُحد کے دن جب دشمنوں نے آپ پر ہجوم کر لیا تو آپ نے فرمایا کون ہے جو ہمارے لیے اپنی جان دیتا ہے؟ سیدنا زیاد بن سکن پانچ انصاریوں سمیت کھڑے ہوگئے اور ایک ایک کرکے آپ کا دفاع کرتے شہید ہوگئے۔سب سے آخر میں سیدنا زیاد رضی اللہ عنہ اوراُمّ عمارہ رہ گئے اوروہ لڑتے رہے یہاں تک کہ زخموں نے انھیں گرادیا۔ پھر مسلمانوں کی ایک جماعت پلٹی تو اُنھوں نے زیاد سے دشمنوں کو ہٹایا۔ آپ نے فرمایا:اسے میرے قریب کردو۔ لوگوں نے سیدنا زیاد کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب کیا۔ آپ نے اپنا قدم مبارک ان کی طرف بڑھایا۔ اُنھوں نے اپنا رخسار آپ کے قدم مبارک پر رکھا اور جان جانِ آفرین کے سپرد کردی۔[2] ۹۔ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کی آپ سے محبت ...سیدنا محمد بن ابراہیم تیمی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کےبعد ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین نہیں ہوئی تھی کہ سیدنا بلال نے اذان دی اور جب أشهد أن محمّد رسول الله پر پہنچے تو صحابہ کرام پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین ہوگئی تو سیدنا ابو بکر نے بلال سےکہا :اذان دو !سیدنا بلال نے کہا: اگر آپ نے مجھے اپنی خاطر آزاد کرایا ہے تو پھر آپ کو یہ حکم دینے کا حق ہے،لیکن اگر آپ نے مجھے اللہ کی رضا کےلیے آزاد کرایا ہے تو پھر مجھے کچھ نہ کہیے۔سیدنا ابو بکررضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے تمہیں صرف اللہ کی رضا کے لیے آزاد کرایا ہے تو سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے کہا :تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اب میں کسی دوسرے کے لیے اذان نہیں کہوں گا۔ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اچھا تیری مرضی۔ اس کے بعد ایک بار سیدناعمررضی اللہ عنہ کے دور میں اذان دینا شروع کی تو رسول اللہ کی شہادت پر پہنچ کر حسبِ عادت چہرہ انور کو دیکھنے کا قصد کیا جب نگاہیں اس مبارک چہرہ کو نہ پا سکیں تو وفورِ جذبات سے آواز رندھ گئی اور جذبات پر قابو نہ رہا |