بڑے زبردست طریقے سے بیان کیاہے۔ ہجرت کے سفرمیں دوسرے دن آپ کا گزر اُمّ معبد کے خیمے سے ہوا، یہ مکہ سے ۱۳۰ کلو میٹر کے فاصلے پر تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تمہارے پاس کھانے کے لیے کچھ ہے ؟ تو اس نے میزبانی سے معذرت کی اور بتایا: بکریاں دور دراز گئی ہوئی ہیں، ایک بکری ہے جو بہت ہی کمزور اور لاغر سی ہے جس میں دودھ کا ایک قطرہ بھی نہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت لے کر اس بکری کا دودھ دھویا اور اس بکری نے اتنا دودھ دیا کہ بڑا سا برتن بھر گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امّ معبد کو بھی پلایا۔اپنے ساتھی کو بھی پلایا،پھر خود پیا اور دوبارہ دھو کر برتن بھر دیا اور روانہ ہوگئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانے کےبعد ام معبد کا شوہر گھر پر آیا۔ اُس نے دودھ دیکھا تو اسے تعجب ہوا۔ پوچھا ! یہ کہاں سے آیا؟ تو اُم معبد نے پوری بات بتلا دی۔[1] اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر تا پا وجود، گفتگو اوراحوال کو بہت تفصیل سے بیان کیا۔ اس پر ابومعبد بول اٹھا: واللّٰہ! یہ توصاحبِ قریش ہے۔ میراارادہ ہے آپ کا ساتھ اختیار کروں اور کوئی راستہ ملا تو ضرور ایسا کروں گا۔ غور کریں کہ ابو معبد کو صرف آپ کا حلیہ مبارک جان کر ملاقات اور رفاقت کا شوق پیدا ہوگیا۔ حلیہ کے ساتھ آپ کا اخلاق اورکردار بھی تھا.... اُمّ معبد نے کیاکہا تھا؟ ''پاکیزہ روح،کشادہ چہرہ، صاحبِ جمال، نہ نحیف و لاغر، نہ توند نکلی ہوئی، آنکھیں سیاہ اور فراخ، یعنی بڑی آنکھیں، بال لمبے اور گھنے، آواز میں بھاری پن،بلند گردن،باریک پیوستہ ابرو، جب خاموش ہوتے تو وقار بلند ہو جاتا، بات کرتے تو بات واضح ہو جاتی، دور سےدیکھنے میں سب لوگوں سے زیادہ خوبصورت،بارونق، قریب سے شیریں اور کمال حسین، شریں کلام، فیصلہ کن بات،تمام گفتگو موتیوں کی لڑی جیسی پروئی ہوئی، میانہ قد وقامت، نہ لمبوترا نہ پست قد، دوشاخوں کے درمیان ترو تازہ شاخ کی مانند،اس کے ساتھی اس پر بچھے جاتے تھے، جب وہ کچھ کہتے تو چپ چاپ سنتے ہیں۔ حکم دیتے ہیں توتعمیل کے لیےلپک پڑتے ہیں۔ نہ کوتاہ سخن نہ ترش رو، نہ فضول گو۔''[2] |