''ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا ہاتھ تھام رکھا تھا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کےرسول! یقیناً آپ مجھے میری جان کےسوادنیا جہاں سے زیادہ عزیز ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : نہیں،قسم ہے اس ذات کی جس کےہاتھ میں میری جان ہے ! اس وقت تک کہ میں تجھے تیری جان سے بھی زیادہ پیارا نہ ہو جاؤں۔ سیدنا عمر نے عرض کیا: وَاللَّهِ، لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِي، فَقَالَ النَّبِيُّ: ((الآنَ يَا عُمَرُ)) اللّٰہ تعالیٰ کی قسم! یقینا اب آپ مجھے میری جان سے بھی زیادہ پیارے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے عمر !اب بات بنی ہے۔''[1] ۲۔ کسی بھی شخصیت کو جاننےاور سمجھنے کےلیے اس کی شکل و صورت اور وجاہت بڑا کردار ادا کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عبداللّٰہ بن سلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ دیکھتے ہی کہہ دیا تھا : ''أَنَّ وَجْهَهُ لَيْسَ بِوَجْهِ كَذَّابٍ''[2] ''بلا شبہ یہ چہرہ کسی جھوٹے آدمی کا نہیں ہو سکتا۔'' ۳۔ سیدنا ابو رِمثہ تیمی بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے بیٹے کو ساتھ لے کر مدینہ منورہ حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شگفتہ چہرے کو دیکھتے ہی سمجھ گیا اور اپنے بیٹے سے کہنے لگا: ''هذا واللّٰه رسول اللّٰه '' [3] ''واللّٰہ! یہ واقعی اللہ کے رسول ہیں۔ '' آج ہمارے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حقیقی تصویر تو موجود نہیں۔ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمت کوتصویر کے فتنے سے منع فرمایا ہے، کیونکہ اس سے شرک کادروازہ کھلتا ہے،البتہ آپ کے حسن وجمال کی جھلک دیکھنے والوں نے آپ کے رخِ انور،حسن و جمال، قدو قامت، بے مثال خدو خال اور باوقار و پر کشش شخصیت کا نقشہ اپنے الفاظ میں کھینچ دیا ہے۔ صحابہ کرام کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سےکس قدر محبت تھی۔ کس کس زاویے سے انھوں نے آپ کو دیکھا، جانچا اور کن کن الفاظ سے آپ کی شخصیت کا احاطہ کیا، اُس سے ان کی محبت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ۴۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ مبارک صرف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نےہی نہیں بلکہ ایک صحابیہ اُمّ معبدنے |