’’مسلمان اس پر متفق ہیں کہ جوشخص بھی دارکفر میں ہواورایمان قبول کرنے کے بعد وہ ہجرت کرنے سے عاجز ہوتوجس سےوہ عاجز ہے، اس پر واجب نہیں،بلکہ حسب امکان ہی اس پر واجب ہوتاہے، اور اسی طرح جب اسے کسی چیز کاحکم معلوم نہ ہو،تو اگر اسے نماز فرض ہونے کاعلم نہ ہو،اور کچھ مدت تک وہ نماز ادا نہ کرے،توعلماء کے ظاہر قول کےمطابق اس کےذمہ نماز کی قضا نہیں،امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور اہل ظاہر کا مسلک یہی ہے،اورامام احمد رحمہ اللہ کےہاں دومیں سے ایک موقف یہ بھی ہے۔ اوراسی طرح باقی ساری فرائض اورواجبات رمضان کے روزے،اورزکوٰۃ کی ادائیگی وغیرہ بھی۔ اور اگر اسے شراب کی حرمت کا علم نہ ہو اور وہ شراب نوشی کر لے تو مسلمان اس پر حد جاری نہ کرنے پر متفق ہیں،تاہم نمازوں کی قضا میں انہوں نے اختلاف کیا ہے۔ اور اس سب کچھ کی بنیاد یہ ہے کہ حکم توجب ثابت ہوتاہے جب حصول علم ممکن ہو،اور جب کسی چیز کے وجوب اور فرضیت کاعلم نہ ہو تواس کی قضا نہیں۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حدیث ہے کہ کئی ایک صحابی رمضان المبارک میں طلوع فجر کےبعد بھی اس وقت تک کھاتے اور پیتے رہے جب تک کہ سفید دھاگہ سیاہ دھاگہ سے واضح نہ ہوا، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں قضا کا حکم نہیں دیا،اور پھر کچھ صحابی ایسے بھی تھے کہ کتنی مدت تک جنابت کی حالت میں نماز ادا کرتےرہے، اور انہیں تیمم کر کے نماز ادا کرنے کے جواز کاعلم ہی نہ تھا، مثلاً ابوذر اورعمر بن خطاب اور عمار رضی اللہ عنہم جب جنبی ہوئےتورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے کسی کو بھی قضا کا حکم نہیں دیا۔ اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ مکہ اورکچھ بستیوں، دیہات وغیرہ میں وہ مسلمان بیت المقدس کی جانب رخ کر کے ہی نماز ادا کرتےرہے،حتی کہ انہیں بیت المقدس کی جانب رخ کرکے ادا کرنے کے حکم کا منسوخ ہونا پہنچ گیا، لیکن کسی کو بھی نمازیں دوبارہ ادا کرنے کا حکم نہ دیاگیا، اور اس طرح کی مثالیں بہت زیادہ ہیں۔ اور یہ اس اصل کے مطابق ہے جس پرجمہور سلف ہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کسی بھی جان کو اس کی استطاعت سے زیادہ مکلف نہیں کرتا، توشرعی حکم کا وجوب قدرت و استطاعت کے ساتھ مشروط ہے،اور سزا بھی اس وقت ہوتی ہے کہ جب حجت قائم ہونے کے بعد مامور کو ترک کیا جائے،یاپھر کسی ممنوع کام کا ارتکاب کیا جائے۔ ‘‘ [1] |