Maktaba Wahhabi

35 - 95
خارجیت پر مبنی رویہ ہوگا، شرعاً اور مصلحتاً بھی اس کا جواز نہیں ہے اور دنیا بھر میں وہ اپنا مقام اور وقار دنوں میں کھو دے گی۔ میڈیا میں آنے والی تازہ ترین اطلاعات کے مطابق، داعش نے سعودی عرب کی بجائے، ترکی وشام کی سرحد کی طرف،کوہ سنجار کی سمت پیش قدمی کرتے ہوئے وہاں یزیدی فرقے کو اپنا ہدف بنایا ہے۔ یہ یزیدی فرقہ، یزد یعنی خدا کے نام پر آگ کا بچاری ہے اورحیران کن طور پردن میں پانچ وقت شیطان کی عبادت کرتا ہے، جسے خدا کےساتھی ’ملک طاؤس‘ کانام دیتا ہے۔ اسے فرقے کی عبادت کی رسومات زیادہ ترعیسائیوں اور کچھ مجوسیوں سے ملتی ہیں۔عیسائی چرچ میں راہب کے ذریعے ان کی شادی کی رسومات منعقد ہوتی ہیں اس بنا پر انہیں عیسائی بھی کہا جاتا ہے۔یزیدی ملعون گروہ کے افراد جونہی پہاڑوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے تو امریکہ نے پہلی بار عملاً اپنی فضائیہ کے ذریعے داعش پر حملے شروع کردیے ہیں اور ان عیسائی مجوسی یزیدیوں کو بچانے کے لیے کھانے کے سامان جہازوں کے ذریعے گرائے ہیں۔اوباما نے یہ بیان جاری کیا ہے کہ ’’ہم جہادیوں کو اسلامی خلافت قائم نہیں کرنے دیں گے۔‘‘ یہی داعش کا اصل کام ہے کہ وہ خالص گمراہی پر کاربندلوگوں یا حکومتوں کی طرف اپنا رخ کرے جو عالمی طاقتوں کے آلہ کار بن سکتےہیں، اور اپنی قوت زیادہ سے زیادہ واضح اہداف کی طرف مرکوز کرے۔ اسلام اور اہل اسلام سے گریز کرکے، ان کو کفر کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کے ازلی دشمنوں سے آغاز میں ہی میثاقِ مدینہ کے معاہدے کئے، صلح حدیبیہ کی پیچیدہ شرائط کو قبول کیا تاکہ نوزائیدہ اسلامی ریاست کوکچھ وقت مل سکے۔ بیت اللہ میں شرکیہ بتوں کو فتح مکہ تک گوارا کیا، جب تک لوگوں میں اس کے خلاف واضح ذہن تشکیل نہ دے لیا اور پورا کنٹرول حاصل نہ کرلیا۔دعوتی وفود، معاہدوں، خطوط اور جہادی پیش قدمی کو درجہ بدرجہ پروان چڑھایا۔ سیرتِ نبوی سے یہ رہنمائی شرعی احکام کے ساتھ حالات کی بہترین واقفیت اور عظیم سیاسی بصیرت کی متقاضی ہے۔داعش انہی نقوش سیرت سے رہنمائی حاصل کرکے، آہستہ آہستہ کامیابی کی طرف بڑھ سکتی ہے۔ ۶۔ نظریاتی اتفاق :یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ دنیا بھر کی جہادی تحریکوں میں چند اہداف کے بارے میں واضح اتفاقِ رائے سامنے آرہا ہے۔ایک تو مغربی تہذیب اور اس کے نعروں کے بارے میں ان کا موقف واضح تر ہوتاجارہاہے، جن میں جمہوریت، انسانی حقوق، اقوامِ
Flag Counter