اپنے تئیں محفوظ ہونے کی کوشش کرتی ہے۔ اسلامیان عالم کے لیے یہ امر کس قدر اندوہ ناک ہے کہ مغربی غلبہ واستیلا کے اس دور میں سعودی عرب کا سب سے بڑا مخالف ایران ہو، جبکہ انہی دو ممالک میں ہی اپنے اپنے عقیدہ کے مطابق اسلامی حکومتیں پائی جاتی ہیں۔سعودی عرب، مصر کی اخوانی حکومت کی معزولی پر اس کا ساتھ دینے کی بجائے مخالف کیمپ میں کھڑا نظر آتا ہے جبکہ سلفی اور اخوانی، دونوں اسلام کے ہی کام کرنے والی دو مخلص تحریکیں ہیں، سید قطب اور حسن البنا کے منہج سے اختلاف کے باوجود ان کے خلوص وجذبہ کی تائید ماضی میں سلفیہ کے قائد شیخ عبد العزیز بن باز کرچکے ہیں اور سعودی عرب میں اخوان کو ہمیشہ سے دینی جدوجہد کی بڑی آزادی اور تائید حاصل رہی ہے۔ پھر اس پر کیوں افسوس نہ ہو کہ سلفی نظریات پر پروان چڑھنے والی داعش کی جہادی تحریک، سعودی عرب کو ہی اپنے نشانے پررکھ لے۔گویا عالم موجود کے چار عظیم اور طاقتور رجحانات آپس میں ہر ایک دوسرے کے درپے ہیں: سعودی عرب، ایران، مصر اور دولتِ خلافت اسلامیہ۔مسائل اور وجوہات کیا ہیں، یہ ایک علیحدہ موضوع ہے لیکن یہ نتیجہ ہر مسلمان کے لیے انتہائی تکلیف دہ ہے، بالخصو ص ان حالات میں جبکہ ملتِ کفر، ان سب کو کچا چباجانے اور مچھر کی طرح مسل دینے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔ دنیا میں جو بھی اسلامی تحریک اُٹھتی ہے، حرمین شریفین کے مقدس مقامات کی محافظ اور خادم ہونے کی بنا پر سعودی حکومت کو اپنے نشانے پر رکھ لیتی ہے۔ایران اپنے روزِ قیام سے حرمین میں اپنی مداخلت کے لیے ہرطرح کی جدوجہد کررہا ہے، اور داعش بھی اسی سمت پیش قدمی کرسکتی ہے، لیکن واضح رہنا چاہیے کہ کسی بھی اسلامی حکومت کا حرمین پر تسلط اس کے اسلامی ہونے کا بنیادی تقاضا نہیں بلکہ اس کے مقبولِ عوام ہونے کی بچگانہ خواہش ہے۔ حرمین کی جس طرح سعودی حکومت نے فرقہ واریت سے بالا تر ہو کر خدمت کی ہے، اسلامی تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے اور مستقبل قریب میں اس کے امکانات بھی نہیں کہ کوئی اور حکومت یہاں ایسے پرسکون انتظامات کرسکے۔آل سعود کی حکومت کا یہ طرۂ امتیاز ہے۔ ماضی کی خلافتیں حرمین پر غلبہ کے باوجود قائم رہی ہیں، افغانستان میں طالبان کی اسلامی حکومت نے حرمین پر غلبہ کو کبھی اپنی خواہش نہیں بنایا، پھر ایران کی یہ خواہش سراسر ہٹ دھرمی اور مسلمانوں کو منتشر کرنے کی سازش ہے۔ داعش بھی اگر اسی روش کو اختیار کرتی ہے تو یہ |