متحدہ، دہشت گردی اوروطنیت کی مذمت سرفہرست ہیں۔ اسی طرح یہ تحریکیں چاہے مشرق وسطیٰ میں ہوں یا افغانستان وپاکستان میں، شیعیت کے بارے میں بھی ان کے موقف میں بھی واضح اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے کہ وہ شیعہ کو اسلام دوست سمجھنے کی بجائے، کفریہ طاقتوں کا آلہ کار سمجھتے ہیں۔پھر مسلم حکمرانوں اور مسلم ممالک میں جاری سرکاری نظاموں کے بارے میں بھی ان کا موقف واضح طو ر پر نکھر چکا ہے۔ جبکہ دوسری طرف بیسیوں صدی کی معروف احیائی تحریکیں ابھی تک مغربی نعروں اور نظاموں کے بارے میں پوری طرح واضح نہیں ہوسکیں، اور وہ انہی حکومتوں اورنظاموں کے تحت غلبہ اسلام کی طرف پیش قدمی کو ممکن سمجھتی اور اسی کی جدوجہد کررہی ہیں۔ یہی وہ فکری اختلاف ہے جس کی بنا پر علامہ یوسف قرضاوی، اخوان المسلمون اور جماعت اسلامی وغیرہ، داعش اور جہادی تحریکوں کے موقف کے قائل اور حامی نہیں ہیں۔ جہادی تحریکوں کے بارے میں ایک موقف سلفی علما کا بھی ہے جو کفر کے مقابلے میں ان کے دفاعی جہاد کو تو خالص جہاد سمجھتے ہیں، جیسا ماضی کا افغان جہاد یا امریکہ کے خلاف افغان یا عراق میں دفاعی جہاد اور داعش کا حالیہ جہاد، البتہ اسلامی حکومتوں کے خلاف تشدد آمیز کاروائیوں کو فتنہ انگیزی اورحکمت کے منافی قرار دیتے ہیں اور اقدامی جہاد کے لیے بھی جہادی تنظیموں کو بہت سی شرائط کا پابند کرتے ہیں، جیسا کہ اس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔ اللّٰہ جل جلالہ سے دعاہے کہ اہل اسلام کو دین اور دنیا کے مسائل کی بصیرت عطا کرے، افتراق وانتشار اور تعصّب وتحزب کی آفت سے بچائے، شرعی اور ملی مقاصد کے لیے خلوص کے ساتھ ایک دوسرے کو سمجھنے اور مل کر چلنے کی توفیق دے۔ خیر القرون میں بھی اسلام کا احیا اور اس کاغلبہ خاص انعاماتِ الٰہیہ اور ان تمام تدابیر کے بغیرنہ ہوا تھا۔ شریعت کا گہر ا علم اصل اور بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے، عبادت وعمل کے بغیر اس میں تاثیر پیدا نہیں ہوسکتی اور حالات کی صحیح سمجھ بوجھ یعنی فقہ الواقع کے بغیر درست فیصلہ نہیں ہوسکتا۔ فراستِ مؤمنانہ سے ہی ان پیچیدہ مسائل اور اہم ملی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہواجاسکتا ہے۔ اللہ اُمتِ اسلام کا حامی وناصر ہو! [ڈاکٹر حافظ حسن مدنی] |