۳۔سورۃالنساء کی آیت ۱۵،۱۶ میں زنا کے جن عادی مجرموں کے لیے (جو عمار خان کے بقول مسلمان تھے) عبوری سزا بیان کی گئی، ان کا جرم چونکہ زنا کے عام مجرموں کے مقابلے میں کئی گناہ زیادہ سنگین تھا اور ان میں بالخصوص یاری آشنائی کا تعلق رکھنے والے بدکار جوڑے اس عرصے میں توبہ و اصلاح کا موقع دیے جانے کے باوجود اپنی روش سے باز نہیں آئے تھے،اس لیے عام مجرموں کے بر خلاف زنا کے یہ عادی مجرم بدیہی طور پر اضافی سزاؤں کے بھی مستحق تھے۔چنانچہ ان کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ ہدایت کی گئی کہ سو کوڑوں کے ساتھ ساتھ ان پر جلا وطنی اور رجم کی اضافی سزائیں بھی نافذ کی جائیں۔(ص: ۱۹۰) لیکن یہ عجیب بات ہے کہ خدائی حکم کے باوجود سیدنا ماعز کو رجم کی سزاتو دی گئی جو کہ اضافی سزا تھی،سوکوڑوں والی بنیادی سزا نہیں دی گئی اور نہ ہی انکو کبھی اسکی دھمکی دی گئی تھی۔ ۴۔حضرت ماعز سے اتفاقیہ زنا سرزد ہو گیا،پھر وہ از خود حاضر ہوئے اور گناہ سے پاک کرنے کا مطالبہ کیا۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر اور حضرت عمر اُن کو بار بار ٹالتے رہے،لیکن وہ بار بار آکر اپنے جرم کا اعتراف کرتے رہے۔رجم کے بعدرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ اس بھلے مانس آدمی کی توبہ بڑے اونچے درجے کی تھی، لیکن عمار صاحب لکھتے ہیں: ''ماعز اسلمی کے جرم کی نوعیت اور ان کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں خود پیش ہونے یا پکڑ کر لانے کے حوالے سے روایات اُلجھی ہوئی ہیں اور تفصیلی تحقیق و تنقید کا تقاضا کرتی ہیں۔بعض روایات کے مطابق ماعز کو رجم کرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو خطبہ ارشاد فرمایا، اس سے اس کا عادی مجرم ہونا واضح ہوتا ہے۔''[1] جبکہ مفتی عبدالواحد صاحب نے ثابت کیا ہے کہ ماعز کے رجم کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبے میں جودھمکی دی تھی، وہ منافقوں کے لیے تھی۔ ۵۔عمار صاحب یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ عربوں کے مسلمان ہو جانے کے باوجود رسول اللّٰہ |