اہمیت کو گھٹاتے ہیں،مثلاً وہ حدیث جس میں عورت کی دیّت کو مرد کی دیت کا نصف قرار دیا ہے،عمار صاحب اس کو ضعیف کہتے ہیں،حالانکہ بعض قرائن و حالات میں (جیسا کہ اہل علم پر مخفی نہیں)ضعیف حدیث سے بھی استفادہ کیا جاتا ہے۔( دیکھیے ص ۸تا ۱۱) عہدِ رسالت کے بھلے مانس لوگوں پر بہتان ۱۔مفتی صاحب نے عمار خان صاحب کے زِناکی بابت قائم کردہ نظریے پر تنقیدکرتے ہوئے اس طرف توجہ دلائی کہ عمار صاحب نے عہدِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کا جو نقشہ کھینچاہے، وہ درست نہیں،اور مدینہ میں کسی کو کہاں جرأت تھی کہ وہ عورتوں پر ہاتھ ڈالتا پھرے یا مستقل یاری،آشنائی اور زناکے اڈّے چلانے کا مرتکب ہو۔تو اس پر عمار خان ناصر نے لکھا: ''ممکن ہے مولانا محترم (عبد الواحد) کا یہ مفروضہ منافقین کے بارے میں درست ہو لیکن جہاں تک مخلص اور خدا ترس اہل ایمان کا تعلق ہے تو مستند روایات کی رو سے وہ ایسا کرنے کی (یعنی زنا کے اڈے چلانے کی، مستقل یاری،آشنائی کرنے کی اور زنا بالجبر کرنے کی) پوری پوری جرأت رکھتے تھے۔'' ۲۔سورہ نساکی آیات ۱۵،۱۶ کی تفسیر میں عہد رسالت کے مسلمانوں کی تصویر کشی جو عمار خان کی ہے، وہ مفتی عبد الواحد صاحب کے الفاظ میں یوں ہے: ''اور (اے مسلمانو!) تمہاری (مسلمان) عورتوں سے جو بدکاری (کے اڈے چلاتی ہیں اور خود بدکاری) کرتی ہیں، ان پر (اس بارے میں) چار گواہ بنا لو (کہ وہ اڈے چلاتی ہیں اور بدکاری کرتی ہیں) پھر وہ گواہ (عدالت میں جا کر) گواہی دے لیں تو تم عدالت کے حکم پر ان (عورتوں) کو گھروں میں روکے رکھو،یہاں تک کہ ان کی موت آ جائے یا اللہ تعالیٰ ان کے لیے کوئی (اور) راہ بنا دیں۔اور (اے مسلمانو!) تم میں سے جو (مسلمان) مرد و عورت (مستقل اور روز مرہ کے معمول کے طور پر یاری آشنائی کریں اور) بدکاری کریں تو (اپنی عدالت کے ذریعے) ان کو ایذا دو (یعنی تعزیر کرو) پھر (ان کی مسلسل نگرانی کرو اور اس پر نظر رکھو کہ ان کے پاس کون آتا ہے اور یہ کس کس کے پاس جاتے ہیں) پھر اگر (معلوم ہو کہ) اُنھوں نے (سچی) توبہ کر لی اور (اپنی) اصلاح کرلی تو ان سے در گزر کرو۔'' (ص: ۱۷۶) |