Maktaba Wahhabi

97 - 111
عمار خان کے خود تراشیدہ سات اُصول یہ وہ اُصول ہیں جو منکرین حدیث کے اختیار کردہ ہیں: ۱۔مقبول و مرفوع حدیث سے ایک حکم ثابت ہو۔اس سے باخبر ہونے کے باوجود اجتہاد و استنباط کر کے اس سے مختلف حکم کو اختیار کیا جا سکتا ہے۔ ۲۔قران مجمل کی خود تعیین کرے تو وہ ابدی و شرعی ہے اور جو تعیین حدیث سے ہو وہ محض عرف پر مبنی ہے، شرعی و ابدی نہیں ہے۔ ۳۔اجماع (سکوتی) محض ظنّی ہے اور ظنی درجے کی یہ حجّت یہ درجہ ہرگز نہیں رکھتی کہ اس کی بنیاد پر قران و سنت سے براہِ راست استنباط کا دورازہ بند کر دیا جائے۔ ۴۔یہ معلوم کرنا ممکن نہیں کہ صحابہ و تابعین نے کون سی متعین رائے کس استدلال کی بنیاد پر اختیار کی تھی۔ ۵۔صحابہ و تابعین کی آرا اور ان کے فتاویٰ کا ایک مخصوص عملی پس منظر تھا،یعنی اس وقت کے مخصوص سماجی اور معاشی حالات پیش نظر تھے جن سے علیحدہ کر کے ان احکام کو صحیح طور پر سمجھنا ممکن نہیں۔اور چونکہ وہ مخصوص عملی پس منظر بدل چکا ہے،لہٰذا جو حکم پہلے دور میں سمجھا جاتا تھا، وہ اب اس طرح سے سمجھا نہیں جا سکتا،اس لیے ہمیں نئے پس منظر میں احکام کو معلوم کرنا ہو گا۔ ۶۔فقہ و تفسیر کا جو ذخیرہ دورِ اوّل کا ملتا ہے وہ کسی طرح بھی قرآن و سنّت کے علمی امکانات کا احاطہ نہیں کرتا، اس لیے اپنے آپ کو ان فقہی و تفسیری آرا کا نہ تو پابند کرنا درست ہے اور نہ اُن کو قانون سازی کا ماخذ بنانا درست ہے،بلکہ حالات کی تبدیلی میں قانون سازی کا اصل ماخذ نصوص ہی قرار پاتے ہیں۔غرض ائمہ سلف کی آرا معیار نہیں،بلکہ جو اُمور معیار ہیں وہ یہ تین چیزیں ہیں: ۱۔مزاج ۲۔شرعی نصوص ۳۔نئے حالات کے تحت نئے احکام ۷۔عمار صاحب جس حدیث کو اپنے مخالف پاتے ہیں، اس کو علی الاطلاق ضعیف کہہ کر اس کی
Flag Counter