افکار و نظریات عبدالحنان کیلانی 'آزادی' اور 'مُساوات' کی مسلّمہ جمہوری اقدار اسلام کی نظر میں گذشتہ چار پانچ صدیوں کے اندر یورپ میں بہت بڑی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔یہ تبدیلیاں ہمہ گیر ہونے کے ساتھ ساتھ عالم گیر بھی ہیں۔ان کی لپیٹ میں حیاتِ انسانی کا ہر شعبہ اور ہر فرد آیا ہے۔مشرقی اور مسلم ممالک نےدانستہ اور نادانستہ اُن کے اثرات کو قبول کیا ہے۔اگر طائرانہ نظر سے دیکھا جائے تو اُن تبدیلیوں کے اثرات اتنے گہرے ہیں کہ دور ِجدید میں ہر فکری تعبیر کےپس منظر میں اُنہیں دیکھا جا سکتا ہے اور یہ تبدیلیاں دنیا میں پہلے سے موجود مکاتبِ فکر کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت اختیار کرگئی ہیں۔ان حالات میں قدیم مکتبہ ہائے فکر کی طرف سے تین رویے سامنے آئے ہیں: ٭خود سپردگی ٭ انکار ٭ جمع و تطبیق ہرفکر اپنے پس منظر میں ایک گہری ثقافت رکھتی ہے۔وہ اپنے حاملین کے مخصوص تاریخی رویے کا اظہار کرتی ہے۔چنانچہ اس کے قائلین کا عمومی رویہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک ایسی تعبیر کو پسند کرتے ہیں جو ان کی ثقافت کو مزید تاریخی جواز فراہم کرے اور ان کی قدیم تاریخی روش کی حوصلہ افزائی کرے۔لیکن حقیقت پسندی کا تقاضا یہ ہے کہ 'حق' کو ہرحال میں تسلیم کیا جائے اورباطل کی ہر حال میں تردید کی جائے اور حقائق کو اپنی خواہشات کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے۔جو چیز جہاں بھی ہے، اگر وہ حق ہے تو اسے تسلیم کیا جائے اور اسی طرح باطل جہاں بھی ہے، اس کی تردید کی جائے۔لیکن اس چیز کا خیال رکھا جائے کہ اس میں کسی بھی پہلو سے افراط و تفریط نہ آئے۔جو جتنا حق ہے، اسے بس اتنا ہی حق کہا جائے اور |