صلی اللہ علیہ وسلم ان میں سے جاہلی معاشرت کے بعض تصورات کی اصلاح نہ کر سکے۔جاہلیت کے عرف کے بر خلاف جس میں مرد کی دیت کے سو اونٹ تھے اور عورت کی دیت کے پچاس اونٹ تھے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرد و عورت کی جان کی قیمت یکساں کرنے کے لیے دیت کا یہ قانون بنایا تھا کہ مرد اور عورت کی تفریق کے بغیر دیت ایک سو اونٹ ہو گی، لیکن تین خلفاے راشدین یعنی حضرت عمر، عثمان و علی اور تین دیگر بڑے اہل علم صحابہ یعنی حضرت ابن عباس، ابن عمر اور زید بن ثابت ان کو یا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بنائے ہوئے قانون کا علم نہیں تھا(جو کہ ناقابل تسلیم بات ہے ) یاا ن حضرات نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بنائے ہوئے قانون کو دیکھا کہ لوگ عورت کی دیت کے سو اونٹ پر راضی نہیں، اس لیے ان حضرات نے معروضی حالات سے مجبور ہو کر عورت کی دیت کے دوبارہ پچاس اونٹ کر دیے۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جو حالا ت پیش آئے،ان میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ان کا اعتبار نہیں کیا اور نصوصِ صریحہ پر عمل کیا۔ ذمّی اگر توہین رسالت کرے تو اس کی سزا امام مالک، امام شافعی اور امام احمد رحمہم اللہ پر تنقید:مسلمان ملک کا غیر مسلم شہری اگر توہین رسالت کا مرتکب ہو تو امام مالک،امام شافعی،اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کے نزدیک اس کی سزا بطور حد کے قتل ہے۔عمار صاحب چونکہ ایسے ذمی کوسزائے موت سے بچانا چاہتے ہیں، اس لیے انہوں نے ائمہ ثلاثہ کو بھی تنقید سے نہ بخشااور اپنے رسالے میں لکھا: ''اگر اس معاملے میں محض جذباتی انداز اختیار کر لیا جائے یا اس ضمن میں اسلامی قانون کی ایسی تعبیر پر(جوکہ توہین رسالت کے مسئلے میں ائمہ ثلاثہ کا قول ہے،اس پر) اصرار کیا جائے جس کے نتیجے میں ان تمام حکمتوں اور مصلحتوں کو یکسر قربان کر دینا پڑے گا جن کی رعایت خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے کی (لیکن ان ائمہ نے نہیں کی) تو یقینی طور سے اس رویے کو (یعنی ائمہ ثلاثہ کے قول کو حکم و قانون بنانے پر اصرار کرنے کو) کوئی متوازن اور دین و شریعت کی ہدایات کی درست ترجمانی کرنے والا رویہ نہیں کہا جا سکتا۔'' |